بلوچ ثقافت کے خلاف سازش: تعلیم اور اقدار کو نشانہ بنانے کی بھارتی کوششیں

بلوچستان اب محض میدان جنگ نہیں، بلکہ پاکستان کے عزم، میڈیا کی بصیرت، اور عالمی انصاف کے پیمانوں کی ایک آزمائش ہے

0

 

تحریر:شکیلہ جلیل
shakila.jalil01@gmail.com
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی نئی لہر اور اس کے پیچھے مبینہ بھارتی سرپرستی نے ایک بار پھر خطے کی سلامتی، داخلی استحکام اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی جامع پریس کانفرنس نے نہ صرف ان خطرات کو اجاگر کیا بلکہ ٹھوس شواہد کے ذریعے دنیا کے سامنے بھارتی مداخلت اور ریاستی دہشت گردی کی واضح تصویر رکھی۔

فتنہ الہندوستان: دہشت گردی کا نیا چہرہ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جس دہشت گرد گروہ کو "فتنہ الہندوستان” کا نام دیاہے ، وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی سرپرستی میں کام کرنے والی تنظیم ہے جو پاکستان میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہی ہے۔ خضدار سانحہ، جہاں ایک اسکول بس پر حملے میں معصوم بچوں کو شہید کیا گیا، ایسی ہی درندگی کا مظہر تھا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ گزشتہ کئی سالوں کی ایک طویل خونریز داستان کا حصہ ہے، جس کا مقصد بلوچستان میں ترقی، امن اور عوامی اعتماد کو سبوتاژ کرنا ہے۔

بھارتی عزائم اور پاکستان کا مؤقف

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک تسلسل سے عالمی فورمز پر پیش کیے گئے ڈوزیئرز اور شواہد کی روشنی میں بھارت کی مداخلت کو بے نقاب کیا۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، دہشت گردوں کے اعترافات، سوشل میڈیا پر بھارتی اکاؤنٹس کی پیشگی معلومات، اور دہشت گردوں کے قبضے سے ملنے والا جدید اسلحہ اس نیٹ ورک کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

فتنہ الخوارج: پراکسیز کا گٹھ جوڑ

فتنہ الہندوستان کے ساتھ "فتنہ الخوارج” کا اتحاد ایک اور خطرناک پہلو ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گرد عناصر صرف سرحد پار سے نہیں بلکہ مقامی سطح پر بھی متحرک اور منظم ہیں۔ بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے یہ نیٹ ورکس سوشل میڈیا پر ڈس انفولیب جیسے منصوبوں کے ذریعے فکری انتشار پھیلاتے ہیں اور مذہبی و نسلی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔

بلوچستان:ترقی کی طرف گامزن

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ بلوچستان اب صرف دہشت گردی کی نہیں بلکہ ترقی، مواقع اور پرعزم نوجوانوں کی کہانی بھی ہے۔ گوادر بندرگاہ فعال ہو چکی ہے، ریکوڈک منصوبہ آپریشنل ہے، ہزاروں طلباء اسکالرشپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور صحت، تعلیم و مواصلات کے شعبے میں اہم پیشرفت ہو رہی ہے۔ ان تمام عوامل سے بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اور پراکسیز خائف ہیں۔

ریاستی ردعمل: فیصلہ کن اور ہم آہنگ

سیکرٹری داخلہ خرم آغا کے مطابق، ریاست نے ان دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف مکمل تعاون، آپریشنز اور انٹیلی جنس اشتراک کو فعال کر دیا ہے۔ صرف 2024 میں 93 ہزار سے زائد آپریشنز، سینکڑوں دہشت گرد ہلاک یا گرفتار اور اہم نیٹ ورکس تباہ کیے جا چکے ہیں۔

میڈیا، قوم اور عالمی اداروں کا کردار

ایک آزاد میڈیا، باشعور قوم اور عالمی ادارے اس وقت ایک نازک مقام پر کھڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق، بچوں کی سلامتی اور علاقائی امن کے ٹھیکیدار بھارت کی ان حرکات پر کب خاموشی توڑیں گے؟ کیا معصوم بچوں کی لاشیں اب بھی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں؟

عزم، اتحاد اور حقیقت کا سامنا

یہ وقت پاکستان کے لیے محض دفاعی نہیں بلکہ نظریاتی، فکری اور سفارتی جنگ کا بھی ہے۔ "فتنہ الہندوستان” صرف ایک گروہ نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جس کا مقابلہ صرف گولی سے نہیں، سچ، حکمت، اور قومی یکجہتی سے کیا جا سکتا ہے۔ دشمن کے ہر وار کا جواب صرف بندوق سے نہیں بلکہ ترقی، تعلیم، اور امن کے بیانیے سے دینا ہو گا۔

بلوچستان اب محض میدان جنگ نہیں، بلکہ پاکستان کے عزم، میڈیا کی بصیرت، اور عالمی انصاف کے پیمانوں کی ایک آزمائش ہے،

Leave A Reply

Your email address will not be published.