ماحولیات کا عالمی دن اور پاکستان: ایک دہائی کی موسمیاتی جدوجہد

0

 

 

شکیلہ جلیل
shakila.jalil01@gmail.com

موسم صرف ہوا کا حال نہیں بتاتا، یہ ایک خاموش زبان ہے جو زمین کی داستان سناتی ہے۔ پاکستان کے شمالی شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگ، جنہوں نے اپنی زندگی کے خوشگوار موسموں کو دیکھا، آج وہی موسم بدلتے، کڑکڑاتے اور بے ترتیب ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔

ہر سال 5 جون کو "ماحولیات کا عالمی دن” دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اور 2025 کا تھیم "زمین کی بحالی، صحراؤں کا پھیلاؤ اور خشک سالی کے خلاف مزاحمت” پاکستان کے موجودہ ماحولیاتی تناظر میں نہایت معنی خیز ہے۔

راولپنڈی-اسلام آباد: کنکریٹ کی چادر تلے دبی فطرت
کبھی سبز پہاڑیوں، کھلے میدانوں اور معتدل موسموں کا استعارہ سمجھے جانے والے راولپنڈی اور اسلام آباد، اب "شہری صحرا زدگی” (Urban Desertification) کی مثال بن چکے ہیں۔

زمینی تبدیلی کا تجزیہ (2015 تا 2025):
سبز زمینوں میں کمی: بنی گالہ، کورال، اور گلریز میں سبزہ 37% کم ہو چکا ہے

مارگلہ ہلز پر تعمیرات: غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور کٹائی

درجہ حرارت میں اضافہ: 2014 میں اوسط درجہ حرارت 28.1°C تھا، 2024 میں 30.3°C ہو گیا

ہیٹ ویو دنوں میں اضافہ: 2015 میں 4 دن، 2023 میں 17 دن

بارش کی شدت: 2022 میں 40% کمی، 2023 میں 62% زائد بارش، شہری سیلاب

زمینی حقیقتیں: انسانی آوازیں، بدلتا ماحول
شمائلہ بی بی (ترنول):
"یہ گرمی پہلے کبھی اتنی تپش نہیں لاتی تھی… کنواں جو کبھی گہرا نہ تھا، اب سوکھ چکا ہے۔”
اپنے باغ کے خشک ہوتے پودے دیکھتے ہوئے شمائلہ بی بی کی آنکھوں میں نمی صرف پانی کی کمی کا نہیں، فطرت سے جڑے رشتے کے ٹوٹنے کا غم بھی لیے ہوئے ہے۔

طلحہ (نوجوان کسان، گوجرخان):
"بارش کا نظام بگڑ چکا ہے، زمین کبھی خشک ہوتی ہے، کبھی پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ ہم کسان روز زراعت کے نقصان کا سامنا کرتے ہیں۔”

پروفیسر کلیم (ریٹائرڈ، G-6):
"ہر طرف سیمنٹ اور ٹائلز ہیں، نہ چھاؤں رہی نہ پینے کا پانی۔ یہ اسلام آباد تو نہیں تھا۔”

پانی: بحران کی گہرائی
زیرِ زمین پانی کی سطح 10 سال میں 40 سے 100 فٹ نیچے جا چکی ہے۔
گھریلو صارفین اب بورنگ، ٹینکروں اور مہنگے واٹر سپلائی سسٹمز پر انحصار کرتے ہیں۔
کورنگ نالہ، نالہ لئی، اور سوان ندی جیسے قدرتی آبی ذخائر خشک ہو چکے یا آلودہ ہو گئے ہیں۔

تحقیقی رپورٹس: حقائق اور خبردار کرتی آوازیں

یواین ڈی پی(2023 -UNDP) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 60% علاقے زمین کی انحطاط کا شکار ہیں

ڈبلیو ڈبلیو ایف(2024–WWF)
کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کا گرین کور 10 سال میں 32% کم ہوا

ڈاکٹر ناہید (ماہر ماحولیات)نے کہا کہ "شہری ترقی کے نام پر زمین، پانی اور ہوا تینوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ حکومت کے پاس پائیدار ماڈل موجود نہیں۔”

ماحولیاتی انصاف اور حکومتی بے حسی

پاکستان کا کاربن اخراج عالمی سطح پر کم ہے، مگر متاثر ہونے میں یہ ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہے۔ حکومتی منصوبہ بندی اکثر وقتی، نمائشی یا غیر مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ ماحولیاتی قانون سازی موجود تو ہے مگر اس پر عملدرآمد اور شفافیت ناپید ہے۔

حل اور سفارشات: کیا امید کی کوئی کرن باقی ہے؟
1. اربن فاریسٹری:
شہروں میں شجرکاری کو پالیسی کا حصہ بنایا جائے، محض مہم تک محدود نہ رکھا جائے۔

2. ری چارج ویلز:
گھروں، عمارتوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کو قانوناً لازم کیا جائے۔

3. گرین زونز کی بحالی:
گرین بیلٹس کو قانونی تحفظ دیا جائے، تجاوزات کا سختی سے خاتمہ کیا جائے۔

4. پانی کا مناسب استعمال:
پانی کے گھریلو، تجارتی اور صنعتی استعمال پر سخت قوانین بنائے جائیں۔

5. تعلیمی اصلاحات:
ماحولیاتی آگاہی اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح سے شروع کی جائے۔

ماحولیات کا عالمی دن ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ زمین ہم سے انتقام نہیں لیتی، وہ صرف جواب دیتی ہے
پاکستان بالخصوص اس کے شہری مراکز ” راولپنڈی اور اسلام آباد ” زمین، پانی اور فضا کے توازن سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر فوری، مستقل اور سائنسی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں محض شجرکاری کی تصویریں اور صاف فضا کی کہانیاں ہی سن کر گزارا کریں گی۔

یہ وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں: ہم زمین کو کیا دے رہے ہیں، اور بدلے میں کیا کھو رہے ہیں؟

"زمین کو بچانا صرف ایک مہم نہیں، یہ انسانیت کی بقا کی شرط ہے۔”

Leave A Reply

Your email address will not be published.