کالام، کاغان، ناران سے آگے… اب گبین جبہ، شاہی باغ، بروغل اور کمراٹ کی باری ہے
خیبر پختونخوا کے چھپے ہوئے جواہرات اب سیاحوں کی نگاہ میں
خیبر پختونخوا (کے پی) کے معروف سیاحتی مقامات جیسے سوات، کالام، ملم جبہ، ناران اور کاغان پر بڑھتے ہوئے ہجوم کے پیشِ نظر صوبائی حکومت نے کم معروف مگر قدرتی حسن سے مالامال مقامات کو سیاحت کا نیا مرکز بنانے پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔
ایبٹ آباد کے نتھیا گلی اور ٹھنڈیانی جیسے مقامات گرمیوں کے سیزن میں گنجائش سے تجاوز کر جاتے ہیں، اس لیے خیبر پختونخوا کلچر و ٹورازم اتھارٹی نے چترال کی پرامن وادیوں، سوات کے گبین جبہ، شاہی باغ اور دیر بالا کے کمراٹ جیسے مقامات کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔
یہ علاقے جو ماضی میں صرف تجربہ کار کوہ پیما اور گروپ ٹریولرز کے لیے ہی قابلِ رسائی تھے، اب ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے جدید سہولیات کے ساتھ ترقی پا رہے ہیں۔
صرف 2024 میں ہی، خیبر پختونخوا میں 1 کروڑ سے زائد مقامی سیاح آئے، جنہیں قدرتی خوبصورتی، جھیلوں، آبشاروں اور گندھارا تہذیب، جھیل سیف الملوک اور ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ترچ میر جیسے تاریخی مقامات نے اپنی جانب کھینچا۔
اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے، حکومت نئے سیاحتی منصوبے متعارف کرا رہی ہے تاکہ شمالی کے پی میں بڑھتی ہوئی سیاحتی سرگرمیوں کو بہتر طور پر سنبھالا جا سکے۔
خیبر پختونخوا ٹورازم اتھارٹی کے جنرل منیجر سرمایہ کاری، عمیر خٹک کے مطابق، چار انٹیگریٹڈ ٹورازم زونز (ITZs)—غانول (مانسہرہ)، مانکیال (سوات)، مداک لشٹ (چترال)، اور ٹھنڈیانی (ایبٹ آباد)—ورلڈ بینک کی مدد سے قائم کیے جا رہے ہیں۔
غانول اور مانکیال کو پائلٹ پراجیکٹس کے طور پر منتخب کیا گیا ہے، جن کا بجٹ بالترتیب 5.5 ارب روپے اور 2.9 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ ان ماڈلز کو ملیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی طرز پر بنایا جا رہا ہے تاکہ کے پی کے مشہور ہل اسٹیشنز پر دباؤ کم ہو۔
ان زونز کے ذریعے تقریباً دو لاکھ براہِ راست و بالواسطہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، اور 2.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
نئے مقامات جیسے لارو ٹاپ، شاہین بن شاہی (لوئر دیر)، بروغل اور سورلاسپور (اپر چترال)، شانگلہ، سمانہ (ہری پور)، اور سولاترن (سوات) میں سیاحتی سہولیات تیار کی جا چکی ہیں۔ سڑکوں کی بہتری اور وزیٹر سینٹرز کا قیام جاری ہے۔
کیمپنگ پوڈز بھی گبین جبہ، جاز بانڈہ، اور شران جیسے مقامات پر متعارف کرائے گئے ہیں، جن کی قیمت 3,500 سے 5,000 روپے کے درمیان ہے۔ یہ پوڈز دو سے چار بیڈ، باتھ روم، کچن اور سیکیورٹی سمیت مکمل سہولیات سے آراستہ ہیں۔
دس مزید پوڈز، جھارگو، سلطانر (سوات)، بروغل ویلی، اور کالام میں کام شروع کرنے والے ہیں۔
مزید یہ کہ کاغان، چترال اور سوات میں تین نئے اسکائی ریزورٹس، بٹہ کنڈی-لالزار چیئر لفٹ، اور دیر-چترال کیبل کار منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں۔
سجکوٹ، نوری، اور جارگو آبشاروں کی اپ گریڈیشن، اور بروغل، کمراٹ اور شیخ بدین جیسے دور دراز وادیوں میں ٹریکنگ روٹس اور ماحولیاتی ریزورٹس پر کام جاری ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے سابق چیئرمین اکنامکس، ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ نئے مقامات کی ترقی سے نہ صرف سیاحتی دباؤ تقسیم ہوتا ہے بلکہ دیہی معیشت کو تقویت ملتی ہے اور مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ٹورازم حبیب عارف کے مطابق حکومت کا ہوسٹ ٹورازم پراجیکٹ (HTP)، مقامی افراد کو 30 لاکھ روپے تک کا بلاسود قرض فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے گھروں میں سیاحتی کمرے تعمیر یا مرمت کر سکیں۔
خواتین اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں تاکہ ان کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔
وزیر سیاحت مشیر زاہد چن زیب کے مطابق، ہوم اسٹے، ہنر کاری اور کمیونٹی ٹریننگ جیسے اقدامات کے ذریعے حکومت دیہی ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔
چترال میں واقع وادی کیلاش میں سڑکوں کی بہتری اور ثقافتی میلوں کی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے باعث سیاحتی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے ہی اقدامات کوہستان جیسے علاقوں میں بھی کیے جا رہے ہیں جہاں ماحولیاتی لاجز اور گائیڈڈ ٹریکس فطرت کے شوقین افراد کو متوجہ کر رہے ہیں۔
سال 2025 کو ترچ میر ماؤنٹین ایئر قرار دیتے ہوئے، حکومت نے کیلاش ویلی روڈ کی مرمت کے لیے 18 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
ایک سیاح نور خان کے مطابق:
"کالام کی تازہ ہوا اور مہوڈنڈ جھیل کا سکون لاجواب ہے، لیکن سڑکیں اور مہنگے ہوٹل فوری توجہ چاہتے ہیں”۔
ایک اور سیاح نے کہا:
"کمراٹ ویلی کی سڑک نہایت خراب تھی، کئی لوگ ہزار روپے فی کلومیٹر کے حساب سے مہنگے جیپ کرایہ پر لینے پر مجبور تھے، یا میلوں پیدل چلتے رہے۔”
"صفائی، صحت کی سہولیات، اور موبائل سگنل کی کمی نے مسائل پیدا کیے۔”
تاہم، ان تمام چیلنجز کے باوجود، ITZs، ہوم اسٹے اور فطرت سے ہم آہنگ منصوبوں جیسے اقدامات کے ذریعے خیبر پختونخوا پاکستان میں سیاحت کے تجربے کو ازسرنو متعین کر رہا ہے، جو نہ صرف نظارے پیش کرتا ہے بلکہ ثقافت، قدرت اور مقامی زندگی سے حقیقی ربط بھی فراہم کرتا ہے۔