چینی معیشت کی نئی سمت: 2025 میں 4.5 فیصد اور 2026 میں 4 فیصد ترقی کی پیش گوئی
ترقی کی پرانی رفتار کم ضرور ہوئی، مگر چین کی پالیسیوں میں لچک، خوداعتمادی اور سوشیل تحفظ کا نیا ماڈل عالمی غیر یقینی حالات میں نمایاں قوت بن گیا
بیجنگ: عالمی بینک گروپ کی تازہ ترین "چائنا اکنامک اپڈیٹ” کے مطابق، چین کی معیشت 2025 میں 4.5 فیصد اور 2026 میں 4 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔ اگرچہ یہ شرح گزشتہ دہائیوں کے تیز رفتار ترقی کے مقابلے میں کم دکھائی دیتی ہے، مگر عالمی معاشی سست روی کے تناظر میں یہ اب بھی ایک مضبوط کارکردگی ہے۔
چین کی یہ معاشی مزاحمت محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے اور اسٹریٹجک معاشی پالیسی شفٹ کا نتیجہ ہے۔ جب تجارت میں رکاوٹیں اور بیرونی غیر یقینی حالات برآمدات اور صنعتی پیداوار کو متاثر کر رہے ہیں، تو بیجنگ نے مالیاتی پالیسیوں کا سہارا لیتے ہوئے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، سبسڈیز میں اضافہ اور سوشیل پروٹیکشن کو تقویت دی ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ چین اس وقت وہی ماڈل اپنا رہا ہے جو مغرب کی سیاسی تقسیم اور بڑی عوامی سرمایہ کاری سے اجتناب کے برعکس ہے۔ تاہم، چین کے لیے بھی چیلنجز کم نہیں۔ ساختی مسائل واضح ہیں، لیکن حکومت ان سے نمٹنے کے لیے حقیقت پسندانہ اور مستقبل بیں اقدامات کر رہی ہے۔
گھریلو کھپت کو معیشت کی نئی بنیاد بنانے کے لیے چینی پالیسی ساز سوشیل سکیورٹی خاص طور پر غیر رسمی اور مہاجر مزدور طبقے کے لیے وسیع تر اقدامات کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کی مارا وارک کے مطابق، بہتر مالی تحفظ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ بچت کے بجائے خرچ کی طرف راغب کر سکتا ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک نئی طاقت بنے گا۔
یہ ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے: چین کا پرانا ماڈل جو برآمدات اور انفراسٹرکچر پر مبنی تھا، اب گھریلو کھپت پر مبنی متوازن ماڈل میں بدل رہا ہے — ایک ایسا ماڈل جس کی مغربی ماہرین معیشت طویل عرصے سے وکالت کرتے رہے ہیں، اور جسے اب چین خود اپنی ضرورت کے تحت اپناتا نظر آ رہا ہے۔
عالمی سطح پر، تقریباً تمام بڑی معیشتوں کی ترقی کی پیش گوئیاں کم کر دی گئی ہیں۔ یوروزون کی ترقی محض 0.7 فیصد، جاپان کی بھی 0.7 فیصد اور بھارت کی 6.3 فیصد تک محدود ہو گئی ہے۔
یہ بات چینی معیشت کو مثالی بنا کر پیش کرنے کی نہیں، بلکہ اس حقیقت کی ہے کہ جہاں دنیا کے کئی ممالک سیاسی تقسیم اور عوامی مقبولیت کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں، چین کی مربوط معاشی پالیسی سازی ایک کارآمد اثاثہ بن چکی ہے۔
عالمی سطح پر بھی، چین ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک شراکت دار کے طور پر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور چائنا افریقہ اکنامک اینڈ ٹریڈ ایکسپو جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے چین انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور ترقی میں اشتراک پر زور دے رہا ہے۔
چین کی معیشت اب شاید دو عددی شرح سے نہ بڑھے، لیکن وہ جس بات کا ثبوت دے رہا ہے وہ شاید اس سے بھی زیادہ اہم ہے: مزاحمت، لچک، اور پرسکون خوداعتمادی — جو آج کے غیر یقینی دور میں سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔