پاکستان کےلئے موثر کاربن مارکیٹ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ، ماہرین
پاکستان کو عالمی ماحولیاتی مالیاتی نظام میں مقام دلانے کےلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں ، ایس ڈی پی آئی سیمینار
اسلام آباد: ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اگر عالمی کاربن مارکیٹ میں موثر کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور ماحولیاتی تباہ کاریوں کے خلاف پائیدار مالی وسائل حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر ایک شفاف اور فعال کاربن مارکیٹ فریم ورک تشکیل دینا ہوگا۔ماہرین نے کہا کہ 2030 تک پاکستان کو ماحولیاتی اقدامات کے لیے کم از کم 348 ارب ڈالر درکار ہوں گے، مگر اب تک سالانہ صرف 1.4 سے 2 ارب ڈالر ہی حاصل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کاربن فنانسنگ کے حصول کے لیے ایم آر وی نظام کی مضبوطی، قانونی اصلاحات، بین الاوزارتی ہم آہنگی اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کو ناگزیر قرار دیا۔یہ آراءپاکستان میں کاربن مارکیٹ کی تیاری کو فروغ کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ میں سامنے آئیں جس کا اہتمام پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) نے کیا تھا۔ورکشاپ کے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ریسرچ) ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے کہا کہ کاربن مارکیٹیں تیزی سے ماحولیاتی مالیات کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر ابھر رہی ہیں، جنہیں قومی سطح پر بھی حمایت حاصل ہے اور عالمی سطح پر بھی ان کی پذیرائی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی مالیات کے لیے ایک دور اندیش حکمت عملی اپنانی ہوگی کیونکہ روایتی مالیاتی ذرائع وقت کے ساتھ ساتھ محدود ہوتے جا رہے ہیں۔کلائمٹ ایکشن اینڈ پالیسی انیشی ایٹو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر عرفان یوسف نے کلائمیٹ انویسٹمنٹ اور مالیاتی تیاری میں ایم آر وی کا کردار کے موضوع پر کلیدی خطاب میں کہا کہ شفاف ماحولیاتی مالیات کے لئے مضبوط ایم آر وی نظام ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ ایم آر وی نہ صرف گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کا سراغ لگاتا ہے بلکہ منصوبہ بندی، جواب دہی اور ضابطہ بندی میں بھی مدد دیتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیاءنے عالمی کاربن مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مسابقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بجٹ میں ڈیزل اور پیٹرول پر عائد کردہ کاربن لیوی اس سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔انہوں نے قرار دیا کہ پاکستان کی صنعتوں کو اپنا کاربن فٹ پرنٹ کم کرنا ہوگا تاکہ وہ یورپی یونین کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکنزم (CBAM) جیسے عالمی ضوابط کے تحت مسابقت میں قائم رہ سکیں۔ایس ڈی پی آئی کی ہیڈ آف ایکولوجیکل سسٹین ایبلیٹی ڈاکٹر زینب نعیم نے کہا کہ کاربن مارکیٹس ان دنوں قدرتی آفات سے نبرد آزما ممالک کے لئے مالی وسائل کا ایک متبادل اور قابلِ عمل ذریعہ بن سکتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ماحولیاتی پائیداری کو قومی معیشت کی منصوبہ بندی کا جزو بنانا ہوگا اور ملک میں ایک مقامی پائیدار صنعتی نظام تشکیل دینا ہوگا جس میں سرکلر اکانومی اور پرما کلچر جیسے تصورات کو فروغ دیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ 2023 سے 2030 کے دوران پاکستان کو تقریباً 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، جن میں سے کم از کم 7 ارب ڈالر صرف ماحولیاتی موافقت کے لئے درکار ہیں۔ ورکشاپ میں ویرا (Verra) اور ریسورسز فیوچر پرائیویٹ لمیٹڈ کے ماہرین نے کاربن پراجیکٹس کی توثیق کے تکنیکی عمل، اور کاربن رجسٹریز کی شفافیت، اعتبار اور دہرا شمار روکنے کے لئے ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ رحمان یوسف نے سندھ کے ضلع میرپور خاص میں جاری ایگروفارسٹری پر مبنی ایک کاربن فنانس پراجیکٹ کی تفصیلات پیش کیں اور کہا کہ اس ماڈل میں وسعت کی صلاحیت موجود ہے بشرطیکہ عالمی معیار کے مطابق توثیق کی جائے۔قانونی ماہر اور سوہیل اینڈ ایل ایل پی کے مینیجنگ پارٹنر بلیند سہیل نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری گرین ٹیکسونومی پر کام ایک خوش آئند پیش رفت ہے، تاہم متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے درمیان مربوط عمل درآمد بھی ضروری ہے۔ورکشاپ کے پہلے دن کے اختتام پر پاکستان انڈسٹریل ڈیکاربنائزیشن پروگرام کی سربراہ صالحہ قریشی نے اعلان کیا کہ سلسلہ وار نشستوں کا اگلا موضوع ایم آر وی نظام ہوگا، جو کسی بھی معتبر کاربن مارکیٹ کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تقریب پاکستان میں ایک موثر اور معتبر کاربن مارکیٹ کے قیام کی جانب اہم قدم ہے، جو نہ صرف عالمی مالیاتی ذرائع کو کھول سکتی ہے بلکہ ماحولیاتی عمل کو بھی تیز کر سکتی ہے۔ورکشاپ کے دوسرے دن کے سیشن میں ایم آر وی نظام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، جنہیں شفافیت، ماحولیاتی مالیات کے حصول، اور قومی سطح پر کاربن مارکیٹ کے لیے تیاری میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔صالحہ قریشی نے عالمی کاربن مارکیٹ کے بدلتے رجحانات پر روشنی ڈالی۔عبید الرحمن ضیاءنے شرکاءکو بتایا کہ ادارہ ایک رہنما کتابچہ تیار کر رہا ہے، تاکہ کاربن مارکیٹ کے پیچیدہ نظام کو سادہ اور قابلِ فہم انداز میں پیش کیا جا سکے۔ نسما رضوان نے ڈی کوڈنگ کاربن مارکیٹسکے عنوان سے شائع ہونے والے اس کتابچہ کا تعارف کروایا، جو اخراجی تجارتی نظام اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کے لیے ایک جامع راہنمائی فراہم کرتا ہے۔دو روزہ ورکشاپ کا اختتام ایس ڈی پی آئی کے سینئر مشیرشکیب الٰہی کے شکریہ کے کلمات پر ہوا، جنہوں نے مقررین، شرکاءاور شراکت دار اداروں کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو ایک معتبر اور موثر کاربن مارکیٹ معیشت میں ڈھالنے کے لیے مسلسل تعاون، پالیسی اختراع، اور اسٹیک ہولڈر شمولیت ناگزیر ہے۔