ترقی کا بجٹ، پائیدار اہداف کی کسوٹی پر۔۔۔۔پارلیمنٹ میں نئے عزم کے ساتھ نئی بحث کا آغاز
پائیدار ترقی کے اہداف پر پارلیمانی ٹاسک فورس کی بجٹ کے بعد بریفنگ
اسلام آباد : پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) پر پارلیمانی ٹاسک فورس نے اپنی کنوینر رکن قومی اسمبلی محترمہ شائستہ پرویز ملک کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں "پائیدار ترقی کے اہداف پر توجہ: بجٹ کے بعد کا تنقیدی تجزیہ” کے عنوان سے ایک اعلیٰ سطحی بریفنگ سیشن کا انعقاد کیا۔ اس سیشن کا مقصد اراکینِ پارلیمنٹ کو وفاقی بجٹ 2025-26 کا SDGs کے تناظر میں تجزیہ کرنے اور قومی اسمبلی کے آئندہ بجٹ اجلاس میں مؤثر شرکت کی تیاری میں مدد دینا تھا۔
اس اجلاس میں وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف جناب عقیل ملک، پارلیمانی سیکریٹریز، اراکینِ قومی اسمبلی اور اقتصادی ماہرین نے شرکت کی۔ ڈاکٹر علی سلمان (ایگزیکٹو ڈائریکٹر PRIME انسٹیٹیوٹ) اور ڈاکٹر عابد قیوم سلہری (ایگزیکٹو ڈائریکٹر SDPI) نے بجٹ پر بریفنگ دی۔
اجلاس کے دوران مختلف اراکینِ پارلیمنٹ نے اہم سفارشات پیش کیں اور سماجی و اقتصادی مسائل پر روشنی ڈالی۔ محترمہ آسیہ ناز تنولی نے تعلیمی نظام میں خامیوں، بیماریوں کے پھیلاؤ، اور SDGs کے حوالے سے عوامی آگاہی کی ضرورت پر زور دیا۔ شائستہ پرویز ملک نے ان تجاویز کی تائید کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے شعور اجاگر کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
ماحولیاتی امور کی وزیرِ اعظم کی کوآرڈینیٹر محترمہ رومینہ خورشید عالم نے دودھ جیسے بنیادی اشیاء پر ٹیکس کو غیر مناسب قرار دیا، جبکہ محترمہ زہرہ ودود فاطمی نے مصنوعی جوسز اور ڈبہ بند اشیاء پر بھاری ٹیکس اور عوامی آگاہی مہم کی تجویز دی۔
محترمہ رانا انصار نے نجی شعبے میں کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد، بی آئی ایس پی میں شفافیت، اور خواتین کے لیے ہنر کی تربیت پر زور دیا۔ محترمہ شاہدہ رحمانی نے آن لائن کام کرنے والی خواتین پر اضافی ٹیکس کے منفی اثرات کی نشاندہی کی اور خواتین ارکانِ پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کی ضرورت پر بات کی۔
دیگر اراکین جیسے محترمہ صبین غوری، سید علی قاسم گیلانی، محمد اسلم گھمن، اور محترمہ شرمیلا فاروقی نے بی آئی ایس پی کے بہتر استعمال، صحت و تعلیم کے شعبے میں فنڈز کی کمی، اور غربت کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات پر تفصیلی تبصرہ کیا۔
شائستہ پرویز ملک اور سابق کنوینر ریاض فتیانہ نے اس بات پر زور دیا کہ SDGs کے لیے مختص فنڈز کے ضیاع کو روکنا ناگزیر ہے تاکہ 2030 تک تمام 17 اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔