اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ

شہید ہونے والوں میں کم از کم 20 ہزار بچے بھی شامل ہیں، یعنی گزشتہ 24 مہینوں کے دوران اسرائیل نے اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک بچے کو شہید کیا

0

غزہ میں 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی آج 2 سال بعد بھی جاری ہے۔

اسرائیلی جارحیت کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اُس وقت ہوا جب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز اور دیگر فلسطینی گروہوں نے جنوبی اسرائیل پر حملے کیے جن میں 1100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 240 افراد کو گرفتار کر کے غزہ لے جایا گیا۔

اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کی اور اپنے طویل عرصے سے جاری محاصرے کو مزید سخت کرتے ہوئے 16 سالہ ناکہ بندی کو مکمل گھیراؤ میں بدل دیا۔

غزہ کا ہر 33 میں سے ایک فلسطینی شہید

2 سال سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم از کم 67 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ سے قبل غزہ کی آبادی کا تقریباً 3 فیصد، یعنی ہر 33 میں سے ایک شخص شہید ہو چکا ہے۔

شہید ہونے والوں میں کم از کم 20 ہزار بچے بھی شامل ہیں،  یعنی گزشتہ 24 مہینوں کے دوران اسرائیل نے اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک بچے کو شہید کیا۔

فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف ان افراد پر مشتمل ہیں جن کی لاشیں اسپتالوں میں لائی گئیں یا جن کی اموات سرکاری طور پر درج ہوئیں۔

شہدا کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ان اعداد و شمار میں وہ لوگ شامل نہیں جو لاپتا ہیں یا جن کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

غزہ میں ہر 14 میں سے ایک شخص زخمی

غزہ جنگ میں ہونے والا جانی نقصان صرف ہلاکتوں تک محدود نہیں، اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ 69 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں بہت سے ایسے ہیں جن کے زخم زندگی بھر کے لیے معذوری بن گئے ہیں۔

یونیسف کے مطابق غزہ میں 3 سے 4 ہزار بچوں کے ایک یا ایک سے زیادہ اعضا ضائع ہو چکے ہیں۔

غزہ کی محصور پٹی میں جو چند اسپتال اب بھی کام کر رہے ہیں، وہ ناکافی طبی سامان، ادویات اور بے ہوشی کے محدود ذرائع کے ساتھ شدید دباؤ میں مریضوں کو سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

125 اسپتال اور طبی مراکز مکمل یا جزوی طورپر تباہ

اسرائیل نے غزہ کے تقریباً تمام اسپتالوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنایا ہے، گزشتہ 2 برسوں میں کم از کم 125 طبی مراکز کو نقصان پہنچا ہے جن میں 34 اسپتال شامل ہیں، یوں ہزاروں مریض بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔

اسرائیلی حملوں اور بمباری کے نتیجے میں کم از کم 1722 طبی و امدادی کارکن شہید ہوچکے ہیں۔

سیکڑوں دیگر طبی اہلکاروں کو اسپتالوں سے زبردستی حراست میں لے کر اسرائیلی جیلوں اور فوجی کیمپوں میں قید کر دیا گیا ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

ہیلتھ کیئر ورکرز واچ کے مطابق 22 جولائی تک اسرائیلی افواج نے غزہ کے 28 نمایاں معالجین کو حراست میں لے رکھا ہے، جن میں 18 سینئیر ماہرین شامل ہیں جو جراحی، اینستھیزیولوجی، آئی سی یو اور امراض اطفال کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

رپورٹس کے مطابق ان میں سے 2 سینئیر ڈاکٹروں کو اسرائیلی حراست میں تشدد سے ہلاک کیا گیا اور ان کی لاشیں تاحال واپس نہیں کی گئیں۔

کم از کم 20 ڈاکٹروں کو ان اسپتالوں سے گرفتار کیا گیا جنہیں اسرائیلی فوج نے محاصرے یا چھاپوں کے دوران نشانہ بنایا جبکہ دیگر کو طبی قافلوں، گھروں یا جبری انخلا کے دوران حراست میں لیا گیا۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
اسرائیلی جیل میں قید غزہ کے کمال عدوان اسپتال کا ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ

قحط

اسرائیل نے غزہ میں منظم انداز میں بھوک اور قحط پیدا کیا ہے، فوجی پابندیوں کے ذریعے امدادی سامان کی ترسیل کو کئی ماہ تک روکا گیا اور خوراک کی تقسیم کاایک ایسا نظام نافذ کیا گیا جس میں روزانہ لوگ کھانے کے حصول کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔

اب تک کم از کم 459 افراد، جن میں 154 بچے شامل ہیں، بھوک اور غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

22 اگست کو اقوامِ متحدہ نے غزہ میں قحط کی تصدیق کی  جو مشرقِ وسطیٰ میں پہلا باضابطہ طور پر تسلیم شدہ قحط ہے۔

27 مئی کو جب اسرائیل اور امریکا کے تعاون سے قائم کردہ جی ایچ ایف نے اقوامِ متحدہ کے دائرے سے باہر امدادی کاموں کا کنٹرول سنبھالا تو ایک نیا مگر جان لیوا نظام متعارف کرایا گیا۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جی ایچ ایف کے مراکز سے خوراک حاصل کرنے کی کوششوں کے دوران اسرائیلی فوجیوں اور جی ایچ ایف سکیورٹی کنٹریکٹرز کی فائرنگ سے اب تک 2600 سے زائد افراد ہلاک اور 19 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

صاف پانی اور سیوریج کا نظام تباہ

اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے غزہ کے پہلے سے ہی تباہ حال فراہمی آب کے بنیادی ڈھانچے کو منظم انداز میں نشانہ بنایا اور کنوؤں، پائپ لائنوں، ڈی سیلینیشن پلانٹس اور نکاسیِ آب کے نظام پر حملے کیے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق غزہ میں  پانی اور صفائی کے نظام کا تقریباً 89 فیصد حصہ تباہ یا شدید طور پر متاثر ہو چکا ہے جس کے باعث 96 فیصد سے زیادہ گھرانے پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔

آج غزہ کی تقریباً آدھی آبادی روزانہ محض 6 لیٹر پانی پر گزارا کر رہی ہے، جو پینے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ 28 فیصد لوگوں کو صفائی اور حفظانِ صحت کے لیے روزانہ 9 لیٹر  سے بھی کم پانی دستیاب ہے جو ہنگامی حالات میں انسانی بقا کے لیے مقرر کردہ 20 لیٹر  کے معیار سے کہیں کم ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

غزہ میں تقریباً تمام گھر تباہ یا شدید متاثر

غزہ کا شاید ہی کوئی امکان ایسا ہے جو اسرائیلی جارحیت سے متاثر نہ ہوا ہو۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگست تک غزہ کی 92 فیصد رہائشی عمارتیں اور 88 فیصد تجارتی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں یا انہیں بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

اسرائیلی فوج پوری کی پوری بستیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا چکی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیٹلائٹ تجزیاتی پروگرام (UNOSAT) کے مطابق 8 جولائی 2025 تک کیے گئے جائزے میں انکشاف ہوا کہ غزہ کی پٹی میں موجود تمام تعمیرات میں سے تقریباً 78 فیصد مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

تعلیم

جنگ کے بوجھ تلے غزہ کا تعلیمی نظام مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے، تقریباً 6 لاکھ 58 ہزار اسکول جانے والے بچے اور 87 ہزار یونیورسٹی کے طلبہ تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں کیونکہ کلاس رومز اور کیمپس ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔

کم از کم 780 تعلیمی عملے کے ارکان شہید ہو چکے ہیں جبکہ 92 فیصد اسکولوں کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

2 سال سے جاری اسرائیلی حملوں میں  تعلیمی اداروں کی 2300 سے زائد عمارتیں، جن میں 63 یونیورسٹیوں کی عمارتیں بھی شامل ہیں، تباہ ہو چکی ہیں۔ جو چند عمارتیں اب بھی قائم ہیں، وہ بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

اسرائیلی جیلوں میں ہزاروں فلسطینی قید

اس وقت 10 ہزار 800 سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ان قیدیوں کو نہایت سنگین اور غیر انسانی حالات میں رکھا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں 450 بچے اور 87 خواتین بھی شامل ہیں۔

ان میں سے بیشتر افراد کو غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔

فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ کم از کم 3 ہزار 629 فلسطینیوں کو ’انتظامی حراست‘ کے تحت قید کیا گیا ہے، یہ وہ پالیسی ہے جس کے ذریعے اسرائیل ’خفیہ شواہد‘ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو غیر معینہ مدت تک قید رکھتا ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

صحافیوں کے لیے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ

7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں تقریباً 300 صحافی اور میڈیا کارکنان شہید ہو چکے ہیں، جس سے یہ صحافت کے لیے دنیا کا خطرناک ترین علاقہ بن چکا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غیر ملکی میڈیا کو غزہ میں داخل ہونے سے مکمل طور پر روک دیا گیا ہے اور صرف چند صحافیوں کو اسرائیلی فوج کے ساتھ محدود رسائی کے تحت داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے 2 سال، غزہ کی 3 فیصد آبادی شہید، 90 فیصد مکانات تباہ
فوٹو: رائٹرز

براؤن یونیورسٹی کے ’کوسٹس آف وار‘ پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں مارے گئے صحافیوں کی تعداد  امریکی سول وار، پہلی اور دوسری عالمی جنگ، کوریا و ویتنام جنگ، یوگوسلاویہ کے تنازعات اور 11 ستمبرحملوں کے بعد افغانستان کی جنگ  میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.