بجٹ 2025-26 مزدوروں کے حقوق سے محروم: محنت کشوں کی آواز نظرانداز

ایس ڈی پی آئی کے سیمینار میں مقررین کا مطالبہ: کم از کم اجرت، لیبر رجسٹریشن اور خواتین مزدوروں کا تحفظ فوری بجٹ ترجیحات میں شامل کیا جائے

0

اسلام آباد : مزدور نمائندوں اور ماہرین نے بجٹ 2025-26کو محنت کش طبقے کے ساتھ صریحاََ ناانصافی قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ لیبر فورس کے حقوق، رجسٹریشن، اور کم از کم اجرت کے تحفظ کو بجٹ ترجیحات کا حصہ بنایا جائے۔ پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار بجٹ 2025-26: محنت کشوں کی نظر میں” کے دوران مقررین نے متفقہ طور پر کہا کہ ملک کے محنت کش طبقے کو پالیسی سازی سے دانستہ طور پر دور رکھا جا رہا ہے۔نشست کی نظامت ایس ڈی پی آئی کے ایڈیٹر پبلیکیشنز سلیم خلجی نے کی۔ انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ تحریکوں نے ماضی میں محنت کشوں کو جو اجتماعی طاقت فراہم کی تھی، آج اس کا وجود عالمی تناظر میں بکھر چکا ہے۔ مزدور طبقے میں ربط و ہم آہنگی کا فقدان ہے اور یونینز باہم منتشر ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ایک نیا، باشعور اور متحد لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تاکہ مزدور اپنے حقوق کے لیے مو ¿ثر آواز بلند کر سکیں۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں محنت کش طبقہ مکمل طور پر نظرانداز ہوا ہے۔ حکومت کی ساری توجہ محاصل کی وصولی پر مرکوز ہے، جب کہ لاکھوں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد رجسٹریشن، اجرت اور قانونی تحفظ جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ خواتین مزدوروں کی حالت تو اور بھی ناگفتہ بہ ہے، جنہیں بنیادی اجرت بھی دستیاب نہیں۔پاکستان ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری اسد محمود نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ وفاقی بجٹ میں مزدوروں کی کم از کم اجرت کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اجرت بورڈ سے بھی مشاورت نہیں کی گئی۔ انہوں نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کم از کم اجرت کو "زندگی گزارنے کے معیار” کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ 75 فیصد غیر رسمی مزدور قانونی تحفظ سے یکسر باہر ہیں۔پی ڈبلیو ایف کی خواتین ونگ سے تعلق رکھنے والی قرةالعین وحید نے کہا کہ گھریلو اور دیہی علاقوں میں کام کرنے والی خواتین کو ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت، کام کی جگہوں پر تحفظ، حفظانِ صحت، ڈے کئیر سہولیات اور مالی شمولیت کے لیے نرم قرضوں تک رسائی جیسے بنیادی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اسد زبیر خان نے کہا کہ موجودہ سیاسی بے ثباتی نے محنت کشوں کے معاشی استحصال کو جنم دیا ہے۔ فری لانس نوجوان زرمبادلہ کما رہے ہیں، مگر حکومت نہ ان کی تربیت کر رہی ہے اور نہ ہی بجٹ میں ان کے لیے کوئی سہولت رکھی گئی ہے۔سٹیٹ بینک لیبر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شفقات وڑائچ نے کہا کہ مزدوروں کو عارضی ملازمتوں اور تھرڈ پارٹی بھرتی کے غیر منصفانہ نظام سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے خواتین کی بجٹ سازی میں نمائندگی کو بھی ضروری قرار دیا۔سی ڈی اے ایمپلائز یونین کے نمائندے اظہار عباسی اور جنرل سیکریٹری چودھری محمد یاسین نے کہا کہ منظم اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں ان کی یونین نے گرمی، سردی، سکیورٹی الاونس، حج کوٹہ اور حافظِ قرآن الاونس جیسے اقدامات کامیابی سے حاصل کئے۔ تاہم، دارالحکومت جیسے مرکزی شہر میں بھی لیبر قوانین کا نفاذ نہایت کمزور ہے۔ چودھری یاسین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں مزدور طبقہ بجٹ سے پہلے سڑکوں پر احتجاج کرتا تھا جبکہ آج ٹریڈ یونینز بکھری ہوئی اور غیر فعال ہو چکی ہیں۔ انہوں نے تمام مزدور تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ ایک اجتماعی اور متحد جدوجہد کا آغاز کریں۔اختتامی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے کہا کہ مزدور یونینز کو اب نئی سوچ، حکمت عملی اور پالیسی سطح پر موثر مکالمے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی یونینز ماہرین پر مشتمل ورکنگ گروپس بنا رہی ہیں تاکہ بجٹ سازی سے قبل ریاستی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکیں۔ انہوں نے تمام شرکاءکا شکریہ ادا کیا

Leave A Reply

Your email address will not be published.