اقتدار کی ہوس یا عوام کی خدمت؟ سیاسی جوڑ توڑ میں نظریات دفن
ایک خاندان، دو جماعتیں,عوامی حقوق کے نام پر ذاتی مفادات کی جنگ، پیسہ، اثر و رسوخ اور اقتدار کی رسہ کشی نے جمہوری اقدار کو مذاق بنا دیا,
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی): آزاد کشمیر میں سیاست عروج پر 2025/26 میں نئے جوڑ توڑ کے لئے پرانے چہروں کی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری۔چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے حلقہ باغ سے الیکشن میں حصہ لیکر وزیر اعظم منتخب ہونے والے سردار تنویر الیاس جو کہ چند ماہ کے اقتدار کے بعد عدم اعتماد کا شکار ہو گئے تھے اور پھر نئی جماعت کا رخ کیا تھا اب حال ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں اور اور باغ میں پیپلز پارٹی کی پہچان سردار قمر الزماں اور ان کے بیٹے ضیاء قمر سے مبینہ طور پر معاملات طے کر کے شمولیت کی اطلاعات ہیں جبکہ دوسری جانب ان کے بھائی سردار یاسر الیاس نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی ہے یعنی ایک ہی گھر اور خاندان کے دو لوگ دو مختلف سیاسی جماعتوں میں ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور سردار تنویر الیاس اور ان کی فیملی میں مسائل اس وقت شروع ہوئے جب تنویر الیاس نے پی ٹی آئی پر سینٹورس کے بزنس اکاؤنٹ سے آنے والی کمائی اڑانا شروع کی آزاد کشمیر کی سیاست میں سب سے بڑھ کر بوریوں کا منہ کھلنے کی روایت رکھی اور تیسرے حلقہ سے آ کر آخری ماہ یا چند ایام میں الیکشن جیت کر ایوان اقتدار تک پہنچے اور پھر وہاں بھی مبینہ طور پر خزانہ سرکار سے بڑھ کر ذاتی حیثیت میں ارد گرد کے لوگوں کو اور پارٹی کو نوازنے کی باتیں بھی زبان زد عام رہی ہیں۔ذرائع کے مطابق اس ساری صورتحال کے بعد سردار تنویر الیاس کو فیملی سے مسائل کا سامنا شروع ہوا اور مبینہ طور بزنس کی تقسیم تک معاملہ جا پہنچا جس میں انہیں سینٹورس کے معاملات سے الگ کر کے اب صرف تاج ریذیڈنشیاء تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب سردار یاسر الیاس کے پاس سینٹورس ہے۔سردار تنویر الیاس نے جو ٹرینڈ سیاست میں دیا تھا اب وہ خود بھی اس سطح پر ساتھ چلنے والوں کو نوازنے سے قاصر ہیں جبکہ دوسری جانب سردار یاسر الیاس کی صورت میں مسلم لیگ ن کو بہترین اے ٹی ایم سروسز میسر ہوں گی۔

ایک ہی خاندان کی دو الگ الگ سیاسی جماعتوں میں موجودگی کن نظریات کی عکاس ہے؟شہرت یا ذاتی اختلافات پر ایک دوسرے کو مات دینے کی جنگ؟کیا یہ عوامی حقوق کی جدو جہد کیلئے سیاسی میدان میں اتر رہے ہیں فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔بظاہر ایسی سیاست عوامی مفاد میں زہر قاتل ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی شہرت کی جنگ کی صورت معاشرے کیلئے بھی زہر قاتل ہے۔سیاسی جماعتوں کے زعماء اور کارکنان کو بھی ایسے رویوں اور نظریات پر آواز بن بلند کرنے کی ضرورت ہے۔