کربلا کی چیخ اور ہماری خاموشی — محرم کی گونج میں فلسطین کا نوحہ

0

تحریر: فریال سفیر

جیسے ہی محرم الحرام کا چاند نمودار ہوتا ہے، دلوں میں عجیب سی اداسی اتر آتی ہے۔ عاشورہ کی تاریخ نزدیک آتی ہے تو امام حسینؑ کی قربانی کے مناظر ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں۔ کربلا کی ریت، خیموں کی آگ، علی اکبرؑ کی جوانی، علی اصغرؑ کی پیاس، زینبؑ کی بے کسی… ہر درد ایک نئی شدت سے دل پر وار کرتا ہے۔

ہم ہر سال امام حسینؑ کی قربانی کو یاد کر کے غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے:

> کیا ہم امام حسینؑ کی قربانی کا حق ادا کر رہے ہیں؟
یا ہم صرف رسم نبھا رہے ہیں؟

کربلا کی قربانی — ایک پیغام، ایک تحریک

کربلا کی جنگ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک ابدی تحریک ہے۔ یہ حق اور باطل کے درمیان ایک لکیر ہے جو ہر دور میں کھنچتی ہے۔ امام حسینؑ نے اپنا سب کچھ قربان کر کے ہمیں سکھایا کہ خاموشی بھی جرم ہے، اور باطل کے ساتھ سمجھوتہ بھی ظلم ہے۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ:

> "زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ حق کے لیے ڈٹ جانا ہی اصل حیات ہے۔”

آج کا منظر — کربلا پھر زندہ ہے

آج اگر ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں تو کربلا کی بازگشت ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔

فلسطین کی خون میں نہائی گلیاں

سوڈان کی فاقہ زدہ مائیں

یمن کے جنگ زدہ اسپتال

شام کے تباہ حال شہر

یہ سب ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ کربلا ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ظلم کا یزیدی لشکر اب بھی سرگرم ہے۔ بم اور گولیاں، پانی بند کرنا، بچے قتل کرنا، عورتوں کو بے گھر کرنا — یہ سب وہی مناظر ہیں جو 61 ہجری میں کربلا کی ریت پر نظر آئے تھے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اب سوال یہ ہے کہ ہم — آج کے مسلمان — کہاں کھڑے ہیں؟
کیا ہم امام حسینؑ کے قافلے میں ہیں؟
یا خاموش تماشائیوں کی اس بھیڑ میں جو حق کو پہچانتی تو ہے، مگر خاموش رہتی ہے؟

یزید کے دربار میں بہت سے لوگ حسینؑ کے حق میں تھے، مگر بول نہ سکے، کھڑے نہ ہو سکے، قربانی نہ دے سکے۔
کیا ہم بھی انہی کی صف میں تو نہیں؟

ہم فلسطینیوں کے لیے روتے ہیں، مگر پھر بھی اسرائیلی مصنوعات خریدتے ہیں۔
ہم زبانی ان کے ساتھ ہوتے ہیں، مگر عملی طور پر اُن طاقتوں کو سپورٹ کرتے ہیں جو ان پر ظلم کر رہی ہیں۔
ہمارے دل فلسطین کے ساتھ، مگر ہمارے وسائل اسرائیل کے پاس!
کیا یہ کھلی منافقت نہیں؟

امام حسینؑ کا پیغام — آج کی زبان میں

آج امام حسینؑ ہوتے تو وہ عملاً مدد کرتے
وہ چاہتے کہ:

ہم مظلوم کی فریاد پر لبیک کہیں

ظالم کے خلاف کھڑے ہوں

انصاف، مساوات اور حریت کا پرچم تھامیں

اور یہ سب زبانی کلامی نہیں، بلکہ عملی میدان میں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ حسینؑ خود اپنے اہلِ بیت اور اصحاب کے ساتھ میدانِ کربلا میں اترے تھے۔

فلسطین: آج کا کربلا

فلسطین کے حالات آج کے کربلا کی تصویر ہیں۔ وہاں کے معصوم بچے علی اصغرؑ بن چکے ہیں۔
ان کی مائیں زینبؑ کے صبر کو دہرا رہی ہیں۔
ہر گرتی لاش، ہر بہتا آنسو، ہر چیختی فریاد ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے۔

مگر افسوس! ہم خاموش ہیں۔
ہم مجلس میں روتے ہیں، لیکن کسی فلسطینی بچے کے لیے دوا نہیں بھیجتے۔
ہم "یا حسینؑ” کے نعرے لگاتے ہیں، مگر ظالموں کی مصنوعات کی خریداری بند نہیں کرتے۔

یہ کون سی وفا ہے؟ یہ کون سی محبت ہے؟

محرم: صرف رونا نہیں، جاگنے کا وقت

محرم ہمیں صرف غم نہیں دیتا، بلکہ ایک دعوت دیتا ہے۔
ایک چیلنج دیتا ہے کہ:

> "اُٹھو! حق کے لیے، مظلوم کے لیے، ظلم کے خلاف!
اگر تم نے خاموشی اختیار کی، تو تم بھی یزیدی صف میں ہو!”

ہمیں امام حسینؑ کی قربانی کو حقیقی معنوں میں زندہ کرنا ہے۔
یہ تبھی ممکن ہے جب ہم:

1. ظالم قوتوں کا معاشی بائیکاٹ کریں

2. فلسطین، سوڈان، یمن جیسے ممالک میں کام کرنے والی معتبر فلاحی تنظیموں کو مالی و اخلاقی سپورٹ دیں

3. سوشل میڈیا پر سچائی پھیلائیں

4. اپنے بچوں، طلباء، معاشرے کو ظلم و عدل کا فرق سمجھائیں

5. اپنی دعاؤں کو عمل میں بدلیں

مسلمان حکمرانوں کی خاموشی — ایک بدنما دھبہ

ہمیں صرف عوام کو نہیں، بلکہ مسلم قیادت کو بھی جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔
جب عالمِ اسلام کے حکمران فلسطین کے مسئلے پر زبانی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتے،
جب وہ ظالموں سے تجارت کرتے ہیں،
تو وہ صرف فلسطینیوں کے قاتل نہیں، بلکہ حسینؑ کے پیغام کے غدار ہیں۔

کیا آج کا یزید محض اسرائیل ہے؟
نہیں!
یزید وہ ہر طاقت ہے جو ظلم کرے، اور وہ ہر ہاتھ ہے جو اس ظلم پر خاموشی اختیار کرے۔

اختتامیہ — امام حسینؑ ہمیں بلا رہے ہیں

کربلا کی چیخ آج بھی فضاؤں میں گونج رہی ہے:
"ہل من ناصرٍ ینصرنا؟”
"ہے کوئی جو ہماری مدد کو آئے؟”

یہ صدا آج غزہ سے بھی آ رہی ہے،
شام کی گلیوں سے بھی،
سوڈان کے کیمپوں سے بھی،
یمن کے اسپتالوں سے بھی۔

اب یہ ہم پر ہے…
کیا ہم امام حسینؑ کی صدا پر لبیک کہتے ہیں؟
یا ہمیشہ کی طرح ماتم کر کے سو جاتے ہیں؟

یہ محرم ہمارے لیے آخری موقع ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی بے حسی توڑیں،
اور اس پیغامِ کربلا کو عمل میں بدل دیں۔

ورنہ…
کل تاریخ ہم سے بھی وہی سوال کرے گی جو یزید کے درباریوں سے کیا گیا:
"تم نے حق کے ساتھ کیا کیا؟”
کربلا پھر سے بسا دی گئی ہے آج کہیں،
بچوں کے لاشے، ماؤں کے آنسو، سجدوں کے زخم،

کبھی غزہ، کبھی شام، کبھی کشمیر میں دیکھو،
حسینیت کے چراغ بجھانے آیا ہے پھر یزیدِ وقت!

Leave A Reply

Your email address will not be published.