وفاقی آڈٹ رپورٹس پر بڑا تنازع: قومی اسمبلی اور آڈیٹر جنرل آمنے سامنے

375 ہزار ارب روپے کی مبینہ بے ضابطگیاں، رپورٹس کی واپسی اور آن لائن اشاعت نے ادارہ جاتی ٹکراؤ کو سنگین بنا دیا

0

اسلام آباد: وفاقی آڈٹ رپورٹس برائے مالی سال 24-2023 پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے درمیان سنگین تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 لاکھ 75 ہزار ارب روپے کی متنازع آڈٹ رپورٹ واپس بھجوا دی جبکہ اے جی پی نے الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔

یہ تنازع گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا جب اسپیکر نے اعتراض کیا کہ رپورٹس وزارتِ پارلیمانی امور کے بجائے براہِ راست اسمبلی سیکرٹریٹ کو ارسال کی گئیں اور پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل ویب سائٹ پر شائع کر دی گئیں، جسے "ایوان کی توہین” قرار دیا گیا۔

پیر کے روز جاری وضاحت میں اے جی پی کے دفتر نے ان الزامات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا۔ وضاحت میں کہا گیا کہ رپورٹس آئین کے آرٹیکلز 168 تا 171 کے مطابق وزیرِاعظم کے ذریعے صدر مملکت کو ارسال کی گئیں اور صدر نے 12 اپریل 2025 کو ان کی منظوری دی، جس کے بعد یہ رپورٹس دونوں ایوانوں کو بھیجی گئیں۔

اے جی پی آفس نے مؤقف اختیار کیا کہ اعداد و شمار میں کوئی غلطی نہیں بلکہ ایگزیکٹو سمری میں مجموعی رقوم کو صرف بطور حوالہ درج کیا گیا تاکہ اسٹیک ہولڈرز سیکٹر وائز جائزہ لے سکیں۔ تاہم وضاحت کے باوجود قومی اسمبلی کا بنیادی اعتراض  کہ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے ویب پر کیوں عام کی گئیں , برقرار ہے۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق یہی بڑی وجہ تھی جس پر رپورٹس واپس کی گئیں۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مجموعی آڈٹ رپورٹ میں 375 ہزار ارب روپے کی مبینہ بے ضابطگیوں کا ذکر سامنے آیا جو وفاقی بجٹ 14.5 ٹریلین روپے سے 27 گنا اور قومی جی ڈی پی 110 ٹریلین روپے سے بھی تین گنا زیادہ ہے۔

حکومتی ذرائع کو شبہ ہے کہ اے جی پی کے دفتر میں کسی نے غیر معمولی اعداد و شمار شامل کر کے حکومت کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی۔ سابق آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے بھی اس رقم کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے فوری نظرثانی پر زور دیا اور کہا کہ ان کے دور میں کبھی آڈٹ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیشی سے قبل عام نہیں کی گئیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.