دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا

0

کیا آپ کو اپنے شہر یا علاقے کا موسم بہت سرد محسوس ہوتا ہے؟ تو یہ جان لیں کہ دنیا کے سرد ترین رہائشی قصبے کے مقابلے میں یہ سردی کچھ بھی نہیں۔

جی ہاں دنیا کے سرد ترین قصبے میں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرگیا ہے۔

آنے والے دنوں میں یہ درجہ حرارت منفی 49 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی جاسکتا ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
یہ قصبہ روس میں واقع ہے / رائٹرز فوٹو

یہ مقام روس کے خطے سائبریا میں واقع قصبہ اویمیا کون ہے۔

اس قصبے میں 500 سے 900افراد مقیم ہیں اور 1924 میں وہاں منفی 71.2 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا، مگر یہ غیر مصدقہ ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
اس موسم میں وہاں گھر سے باہر نکلنے پر پلکوں پر برف جم جاتی ہے / اے پی فوٹو

مصدقہ طور پر یہاں سب سے کم درجہ حرارت 1933 میں منفی 67.7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔

یہاں موسم سرما میں اوسط درجہ حرارت منفی 58 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسے دنیا کا سرد ترین رہائشی مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
وہاں جانے والی سڑک / فوٹو بشکریہ Amos Chapple

یہ قصبہ یاکوتسک نامی شہر سے 577 میل دور واقع ہے۔

یاکوتسک کو دنیا کا سرد ترین شہر قرار دیا جاتا ہے، جہاں سے ایک ہی سڑک اویمیاکون تک لے جاتی ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
قصبے کا نام / رائٹرز فوٹو

اس سڑک پر سفر کرکے وہاں پہنچنے میں لگ بھگ 2 دن لگتے ہیں۔

اویمیا کون کا مطلب کبھی نہ جمنے والا پانی ہے جو وہاں قریب موجود ایک گرم چشمے کے اوپر رکھا گیا ہے۔

زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نام کے برعکس عموماً موسم سرما میں وہاں بہتا ہوا پانی کہیں نظر نہیں آتا۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
یہاں 500 افراد مقیم ہیں / رائٹرز فوٹو

یہاں سردی کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو منجمد گوشت کھانا پڑتا ہے اور گھر سے باہر موجود گاڑیوں کو 24 گھنٹے چلائے رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ بند کرنے پر انہیں دوبارہ چلانا ممکن نہیں ہوتا۔

جب کسی فرد کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی تدفین کے لیے کئی دن تک زمین پر آگ جلائی جاتی ہے تاکہ اس کو کھودنا ممکن ہوسکے۔

یہ قصبہ آرکٹک سرکل سے چند سو میل دور ہے اور اسی وجہ سے موسم سرما میں یہاں 21 گھنٹے تک تاریکی چھائی رہتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ 24 گھنٹے میں 3 گھنٹے ہی کسی حد تک دن کی روشنی نظر آتی ہے، مگر سورج بہت کم نظر آتا ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
اویمیاکون وادی کا ایک منظر / رائٹرز فوٹو

اتنے سرد موسم میں لوگوں کو خود کو زندہ رکھنے کے لیے متعدد طریقے اپنانے پڑتے ہیں۔

گھروں میں ٹوائلٹ نہیں ہوتے بلکہ انہیں باہر تعمیر کیا جاتا ہے کیونکہ سرد موسم کے باعث پائپ منجمد ہو کر پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

یہاں کی منجمد سرزمین پر فصلیں اگانا ممکن نہیں تو لوگوں کو قطبی ہرن کے گوشت، منجمد مچھلیوں کے کچے گوشت اور گھوڑے کے خون سے تیار آئس کیوبس کو غذا کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
پلکوں پر برف جمنے کی ایک اور تصویر / اے پی فوٹو

جب کوئی فرد گھر سے باہر نکلتا ہے تو کہیں رکنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں بلکہ جتنی تیزی سے ہو سکے چلتا ہے تاکہ جسمانی درجہ حرارت بہت زیادہ کم نہ ہوجائے۔

درحقیقت گھر سے باہر نکلتے ہی پلکوں پر برف جم جاتی ہے اور کچھ سال پہلے تو وہاں سردی کی شدت سے الیکٹرونک تھرما میٹر بھی پھٹ گیا تھا۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
ایک بار تو شدید سردی سے تھرمامیٹر بھی پھٹ گیا تھا / رائٹرز فوٹو

اگر کوئی فرد چشمہ پہن کر باہر نکلے تو خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے چہرے پر ہی نہ چپک جائے۔

یہ قصبہ 1920 کی دہائی میں آباد ہوا تھا، اس سے قبل یہاں موسم سرما میں خانہ بدوش قیام کے لیے آتے تھے تاکہ ان کے قطبی ہرنوں کو گرم چشمے سے پانی ملتا رہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
اسکول جانے والے بچے / رائٹرز فوٹو

دلچسپ بات یہ ہے کہ موسم گرما میں یہاں درجہ حرارت کئی بار 35 ڈگری سینٹی گریڈ کو بھی چھو لیتا ہے۔

اگر وہاں موسم سرما میں کسی فرد کا انتقال ہو جائے تو تدفین سے قبل برف کو پگھلایا جاتا ہے کیونکہ منجمد میدان میں گڑھے کو خود عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
برف کو پگھلایا جا رہا ہے / رائٹرز فوٹو

کچھ سال پہلے ایک فوٹو گرافر Amos Chapple وہاں گئے تو انہوں نے موسم سرما میں لوگوں کی زندگی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا تھا۔

ان سب حالات کے باوجود وہاں کئی اسکول موجود ہیں جبکہ ایک پوسٹ آفس، بینک اور ایک ائیر پورٹ رن وے بھی موجود ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
وہاں کا ایک منظر / رائٹرز فوٹو

تو یہاں اتنی زیادہ سردی کیوں ہوتی ہے اور لوگ کیوں اتنے سخت ماحول میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں؟

ماہرین کے مطابق سائبریا کا خطہ بہت وسیع و عریض ہے اور سطح سمندر سے کافی بلند ہے اور ان دونوں کے امتزاج کے باعث وہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
یہاں ہر چیز برف سے ڈھکی نظر آتی ہے / رائٹرز فوٹو

5 ماہ طویل موسم سرما کے دوران یہاں سورج یا دن کی روشنی کا دورانیہ محض 5 سے 6 گھنٹے کا ہوتا ہے۔

اویمیا کون ایک وادی کے درمیان واقع ہے اور اس کے اردگرد اونچی پہاڑیاں ہیں تو بھاری سرد ہوا وادی کی سطح کے قریب ‘پھنس’ جاتی ہے، جس کا نتیجہ درجہ حرارت میں ریکارڈ کمی کی شکل میں نکلتا ہے۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
یہاں ہر سال متعدد سیاح آتے ہیں / رائٹرز فوٹو

ویسے تو اتنے سرد مقام پر کسی کے لیے گھومنے جانا بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے مگر یہ ایڈونچر کے شوقین سیاحوں میں ایک مقبول مقام ہے۔

وہاں ہر سال ایک میراتھن ریس بھی ہوتی ہے جس میں شرکت کرنے والے 35 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
وہاں رہنے کے لیے متعدد تہوں پر مبنی لباس کا استعمال کرنا پڑتا ہے / رائٹرز فوٹو

اسے اویمییاکون میراتھن کا نام دیا ہے ویسے اسے دنیا کی سرد ترین میراتھن ریس بھی کہا جاتا ہے۔

تو پھر اتنے سخت موسم کے باوجود لوگ وہاں کیوں رہائش پذیر ہیں؟

دنیا کا سرد ترین قصبہ جہاں درجہ حرارت منفی 42 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا
ایک میراتھن میں شریک خاتون / اے پی فوٹو

ماہرین کے خیال میں وہاں رہنے والے افراد کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ کس جگہ مقیم ہیں اور کس طرح کامیابی سے اتنے سخت مقام پر بھی معمولات زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.