وزیرِ اعظم نے مالیاتی بل پر تحفظات دور کرنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کر دی

گرفتاری کے اختیارات میں شفافیت، کاروباری برادری کے خدشات دور، ٹیکس قوانین کی مؤثر عملداری پر زور

0

 

اسلام آباد۔:وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے مالیاتی بل 2025 میں متعارف کردہ ترامیم پر تحفظات دور کرنے کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی ہے، کمیٹی کی سربراہی وزیر خزانہ و محصولات کریں گے جو مجوزہ ترامیم کا دوبارہ جائزہ لے کر ایسے حفاظتی اقدامات تجویز کریں گے جو ان اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کو روک سکیں۔کمیٹی کے دیگر ارکان میں وزیر قانون، وزیر برائے اقتصادی امور ڈویژن، وزیر مملکت برائے خزانہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار اور چیئرمین ایف بی آر شامل ہوں گے۔ کمیٹی اس امر کو یقینی بنائے گی کہ جائز اقتصادی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں اورعلاوہ ازیں اختیارات کے غیر قانونی استعمال سے بچائو کے لیے مزید حفاظتی اقدامات بھی تجویز کرے گی۔ کمیٹی اپنی سفارشات جلد از جلد وزیر اعظم کو پیش کرے گی، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 37 اے کے تحت ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری سے متعلق قانونی دفعات پہلے ہی موجود ہیں۔

 

جمعہ کویہاں ایف بی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مالیاتی بل اس وقت قومی اسمبلی اور مختلف کاروباری حلقوں میں زیر بحث ہے، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا میں گردش کرنے والی متعدد خبروں سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ مالیاتی بل میں کی گئی کچھ ترامیم کے بارے میں عوام میں ابہام پایا جاتا ہے،مثال کے طور پر سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 37 اے کے تحت ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری سے متعلق قانونی دفعات پہلے ہی موجود ہیں جن کے تحت اختیار کردہ مفصل طریقہ کار کے مطابق گرفتاری کے بعد خصوصی جج کو فوری اطلاع دی جاتی ہے اور مذکورہ شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر خصوصی جج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاہم مجوزہ ترمیم اب افسر کے گرفتاری کے اختیار کو محدود کرتی ہے اور اسے کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری کے بعد ابتدائی انکوائری کرنے کا پابند بناتی ہے۔ صرف اس انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر کمشنر ان لینڈ ریونیو تفتیش کی اجازت دے گا

جس سے تفتیشی افسر کو ضابطہ فوجداری 1898 (ایکٹ V آف 1898)کے تحت پولیس سٹیشن کے انچارج جیسے اختیارات حاصل ہوں گے۔ گرفتاری صرف کمشنر ا ن لینڈ ریونیو کی پیشگی منظوری کی صورت میں ممکن ہو گی ، اگر تفتیشی افسر کو یہ یقین ہو کہ متعلقہ شخص نے ٹیکس فراڈ کیا ہے۔نئی قانونی ترمیم مزید یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اگر گرفتاری بدنیتی پر مبنی ہو تو معاملہ چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو کو حقائق جاننے کے لئے بھیجا جائے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابقہ قانون کے برخلاف جہاں اسسٹنٹ کمشنر ان لینڈ ریونیو کسی مجرم کو گرفتار کر سکتا تھا، نئی ترامیم گرفتاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بناتی ہیں کیونکہ ان میں کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری سے ابتدائی انکوائری اور باقاعدہ تفتیش لازمی قرار دی گئی ہے۔ بیان کے مطابق کچھ ترامیم اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے افراد کو یقین دہانی کرائی جا سکے کہ ریاست ٹیکس چوری یا ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔

ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے حالیہ ترامیم پر تبادلہ خیال کرنے اور جہاں ضرورت ہو ان میں مزید بہتری لانے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ مثال کے طور پر گرفتاری سے متعلق دفعات میں یہ شرط شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی گرفتاری سے پہلے ایک سے زیادہ سینئر افسران سے اجازت لی جائے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی اور ٹیکس قوانین پر عمل پیرا نہ ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے پر عزم ہے تاکہ ریاست کی آمدن اور ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.