چینی خواتین بھی پاکستانی مہندی کی دیوانی نکلیں
چائنا-جنوبی ایشیا ایکسپو میں پاکستانی مہندی کے حسین نقوش نے چینی عوام کو مسحور کر دیا، مہندی پاکستانی ثقافت کا دلکش سفیر بن گئی
کونمنگ: پاکستانی مہندی کے فن نے چینی عوام کو دیوانہ کر دیا۔ چین کے جنوب مغربی صوبے یون نان کے دارالحکومت کونمنگ میں جاری چائنا-جنوبی ایشیا ایکسپو کے نویں ایڈیشن میں جب مہندی کے حسین و منفرد ڈیزائنز نے پاکستانی پویلین کی زینت بنے، تو شرکاء کا ہجوم اس حصے کی جانب کھنچتا چلا آیا۔
مہندی آرٹسٹ اقبال احمد ڈار اور ان کی چینی اہلیہ لی ویروئی پاکستانی روایتی فن کو ایک نئے رنگ میں پیش کرتے نظر آئے۔ کنونشن سینٹر میں مہندی کے پیچیدہ نقوش اور ان کی علامتی اہمیت نے نہ صرف شہریوں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
پاکستانی پویلین میں آنے والی چینی خواتین خاص طور پر مہندی کے تجربے سے متاثر ہوئیں۔ کسی کے ہاتھ پر کنول کا پھول ابھرا، تو کسی کے بازو پر مور یا ہاتھی کے خوش بختی کے نشان۔ مہندی کا خالص پیسٹ، جو قدرتی پودے سے تیار کیا گیا، سات سے پندرہ دن تک اپنی چھاپ چھوڑتا ہے — اور یہی خوبصورتی اس فن کو ناقابلِ مزاحمت بناتی ہے۔
اقبال ڈار کا کہنا تھا:
"مہندی صرف رنگ یا ڈیزائن نہیں، بلکہ یہ ایک ثقافتی علامت ہے۔ یہ ہماری خوشیوں، محبت، زرخیزی اور روحانی وابستگی کی نمائندگی کرتی ہے۔”
ان کی اہلیہ لی ویروئی نے اس تجربے کو پاکستانی-چینی تعلقات کے لیے ایک "ثقافتی پل” قرار دیا اور کہا:
"ہم چاہتے ہیں کہ لوگ صرف مصنوعات نہ خریدیں بلکہ پاکستان کو محسوس کریں۔”
چائنا-جنوبی ایشیا ایکسپو میں مہندی کے یہ تجربات نہ صرف پاکستانی ثقافت کے حسین رنگ دنیا کے سامنے لا رہے ہیں، بلکہ دونوں ممالک کے عوامی رابطوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ کنول، مور، ہاتھی — یہ سب علامات اب صرف جنوبی ایشیا کی نہیں رہیں، بلکہ ایک عالمی شناخت بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔
اب مہندی کا فن نہ صرف شادیوں کی روایت تک محدود ہے، بلکہ جدید فیشن کا حصہ بھی بن چکا ہے، اور چینی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔
پاکستانی مہندی، جو برسوں سے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے، اب چین میں ایک "کلاسک سے جدید تک” کا سفر طے کر رہی ہے — اور یہ صرف آغاز ہے۔