محاذ آرائی نہیں مکالمہ : سینیٹر عبدالقیوم کا لندن میں عالمی امن کیلئے پرزور پیغام

بین الاقوامی تنازعات کا حل صرف پرامن بقائے باہمی اور باہمی مکالمے سے ممکن ہے، لندن کے تھنک ٹینک میں سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کا خطاب

0

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا ہے کہ عالمی بحرانوں کا حل صرف پرامن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند رہنے میں ہے، جو مکالمے کو ہی واحد ذریعہ قرار دیتا ہے تاکہ علاقائی اور بین الاقوامی پیچیدہ تنازعات کا دیرپا حل ممکن بنایا جا سکے۔ وہ لندن میں قائم تھنک ٹینک "فورم فار انٹرنیشنل ریلیشنز ڈویلپمنٹ (FIRD)” کے سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

FIRD کے چیئرمین، ممتاز سماجی رہنما اور مخیر شخصیت، جناب طاہر قریشی ایم بی ای، ان سیمینارز کا انعقاد باقاعدگی سے کرتے ہیں تاکہ بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔

جنرل عبدالقیوم نے اپنے خطاب میں کہا کہ یکطرفہ اقدامات نے اقوام کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے اور طاقت کے ذریعے حکومتیں تبدیل کرنے کا سلسلہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بدقسمتی سے اب دنیا بلاک سیاست، سرد جنگوں اور تجارتی محاذ آرائیوں کا دوبارہ شکار ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست، روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی خطرات نے اقوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ ایسے ماحول میں مکالمہ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو بین الاقوامی تعلقات میں بہتری لا سکتا ہے اور مختلف قوموں، ثقافتوں اور طبقات کے درمیان اعتماد و مفاہمت کو فروغ دے سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جنگیں، خواہ روایتی ہوں یا غیر روایتی، مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ اسلحہ اور جنگی تصادم صرف تباہی، انسانی المیے اور عوامی مصائب کو بڑھاتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کی مثال دیتے ہوئے جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ اس میں تقریباً 1.5 سے 2 کروڑ انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بالآخر فرانس کے شہر ورسیلز میں 28 جون 1919 کو ایک معاہدہ ہوا، جس میں آئندہ جنگوں کو روکنے کے لیے "لیگ آف نیشنز” قائم کی گئی۔ اس کے چارٹر میں 26 آرٹیکلز شامل تھے جن کے اہداف میں عالمگیر غیر مسلحیت، اجتماعی سلامتی اور عالمی معیارِ زندگی کی بہتری شامل تھی۔ تاہم یہ تنظیم اس لیے ناکام ہوئی کہ بڑی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ اور سوویت یونین، اس کا حصہ نہ بنیں۔

دوسری عالمی جنگ میں 7 سے 8 کروڑ اموات ہوئیں اور امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے۔ اس کے بعد اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام عمل میں لایا گیا، جو آج بھی وہی ساختی کمزوریاں رکھتی ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی ویٹو پاور عالمی امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جیسا کہ ہم غزہ کی جنگ میں دیکھ چکے ہیں۔

جنرل عبدالقیوم نے عراق، شام، لیبیا اور افغانستان پر امریکہ/نیٹو کے حملوں، اور حالیہ دنوں میں بھارت و اسرائیل کی جانب سے پاکستان و ایران پر حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک دنیا میں ہر چھوٹے بڑے ملک کو مساوی تحفظ اور خودمختاری حاصل نہیں ہوگی، عالمی امن، انصاف اور اطمینان ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت اندرونی طور پر سیاسی عدم استحکام، معاشی مشکلات اور بھارت و اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی جیسے بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ و چین کی محاذ آرائی اور اقوامِ متحدہ کی بے اثر حیثیت، دنیا کو ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جارحیت، آبی دہشت گردی اور اقلیتوں کے خلاف پالیسیوں نے علاقائی توازن بگاڑ دیا ہے۔ بھارت کی ہندوتوا سوچ 12 ریاستوں میں اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہی ہے اور جنگی جنون کو ہوا دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا کی 10 بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، اور 34 لاکھ سے زائد سابق فوجی اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آخر میں جنرل نے کہا کہ آج دنیا میں کوئی بھی ملک مکمل خودمختار نہیں رہا۔ ہر ملک کو کہیں نہ کہیں بیرونی تعاون یا مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ ہم ایک صدی قبل کے لیگ آف نیشنز کے چارٹر کو اپنائیں جو اسلحہ کے خاتمے، اجتماعی سلامتی، اور کسی ایک پر حملے کو سب پر حملہ قرار دیتا تھا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی امن صرف مکالمے سے ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کا فورم بھی اسی لیے ہے کہ پیچیدہ مسائل کو گفت و شنید سے حل کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور اسرائیل نے پاکستان اور ایران پر حملے کر کے اقوام متحدہ کے منشور کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ انہیں ان جرائم کا حساب دینا ہوگا۔ ہم اپنی فوج اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت پر فخر کرتے ہیں جنہوں نے بھارت کی روایتی بالادستی کا زعم توڑا اور جنوبی ایشیا میں نئی سٹریٹیجک حکمتِ عملی وضع کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.