بچوں سے مشقت نسلوں کا اندھیرا ہے
چائلڈ لیبر: جرم بھی، ظلم بھی, صرف 37 فیصد کیسز میں سزا، باقی مجرم آزاد
اسلام آباد : بچوں سے جبری مشقت کے انسداد کے عالمی دن کے موقع پر سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) نے توجہ دلائی ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے بڑھتے ہوئے رجحانات باعثِ تشویش ہیں۔ بچوں کو جبری مشقت کے چنگل سے نکالنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایس ایس ڈی او کی جانب سے اپریل 2025 میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سال 2024 میں ملک بھر میں بچوں سے جبری مشقت کے 895 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے صرف 37 فیصد میں مجرموں کو سزا دی گئی۔ پنجاب میں سب سے زیادہ 450 کیسز جبکہ خیبرپختونخوا میں 426 کیسز سامنے آئے۔ سندھ اور بلوچستان میں رپورٹنگ کی شرح افسوسناک حد تک کم رہی ۔
اس موقع پر ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ بچوں سے جبری مشقت نہ صرف ایک مجرمانہ فعل ہے بلکہ یہ ایک پوری نسل کا مستقبل تاریک کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت کو فوری طور پر چائلڈ پروٹیکشن کے نظام کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر ہم آہنگ پالیسی، بین الصوبائی تعاون اور خطرے کی نشاندہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔
سید کوثر عباس نے مزید کہا کہ جب تک ہمارا ہر بچہ تعلیم سے آراستہ نہیں ہوتا اور جب تک معاشرہ بچوں کو مشقت کا ایندھن بننے سے نہیں بچاتا، ہم ترقی کے کسی بھی خواب کو حقیقت میں نہیں ڈھال سکتے۔ چائلڈ لیبر صرف ایک جرم نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر سوالیہ نشان ہے۔ ہماری اپریل میں جاری ہونے والی رپورٹ ایک آئینہ ہے اور یہ آئینہ ہمیں دیکھا رہا ہے کہ ہم نے کہاں غفلت کی ہے۔