چین میں تل کی بڑھتی طلب، پاک چین معاہدہ کسانوں کے لیے نئی راہیں ہموار کرے گا
فیصل آباد زرعی یونیورسٹی اور چینی اداروں کے درمیان معاہدے کے بعد اعلیٰ معیار کے تل کی پیداوار، جدید ٹیکنالوجی اور برآمدات میں اضافے کے وسیع امکانات پیدا ہوگئے۔
بیجنگ: چین میں جب تل کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے خوشبودار تیل اور مزیدار پکوان ذہن میں آتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ننھا سا بیج عالمی صنعتوں کی ترقی کا نیا “چِپ” بن سکتا ہے۔
چین میں تل سویا بین کے بعد سب سے زیادہ درآمد کی جانے والی فصلوں میں شامل ہے۔ چین ہر سال تقریباً 85 فیصد سویا بین درآمد کرتا ہے، اور تل کے معاملے میں بھی صورتحال تقریباً یہی ہے۔ اس وقت چین کو سالانہ 15 لاکھ ٹن تل کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں سے صرف 3 لاکھ ٹن مقامی پیداوار سے پورے ہوتے ہیں جبکہ باقی 12 لاکھ ٹن درآمد کیے جاتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی طلب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چینی مارکیٹ کو حاصل کرنا لامحدود مواقع فراہم کر سکتا ہے۔
5 ستمبر کو پاک چین مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے جس کے تحت فیصل آباد زرعی یونیورسٹی (UAF)، آئل کراپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ – چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز (OCRI-CAAS) اور صوبہ ہوبے کی کمپنی لیان فینگ گروپ نے تل کی اعلیٰ کوالٹی اور سخت موسمی حالات برداشت کرنے والی اقسام کی مشترکہ تحقیق اور ترقی پر اتفاق کیا ہے۔ اس تعاون میں جینیاتی وسائل کا تجزیہ، بہترین مواد کی نشاندہی، زیادہ پیداوار دینے والے جینز اور خصوصیات کی کھوج، اور نوجوان سائنسدانوں کی تربیت شامل ہوگی۔
چین میں تل کی مسلسل بڑھتی طلب، جو زیادہ تر خوراک اور تیل نکالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، پاکستانی کسانوں اور برآمدکنندگان کے لیے سنہری موقع ہے۔ پاکستان پہلے ہی چین کو تل کی برآمدات میں نمایاں اضافہ کر چکا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان کی تل کی پیداوار 455 فیصد بڑھ کر 11.19 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے، جبکہ برآمدات 327 فیصد اضافے سے 7.6 لاکھ ٹن تک پہنچ گئیں، جس سے ایک ارب 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی۔
چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں چین کی بہترین اقسام بڑے پیمانے پر کاشت کی جائیں تو دونوں ملکوں کے لیے ’’ون-ون صورتحال‘‘ ہوگی۔ تل نہ صرف خشک سالی برداشت کرنے والی فصل ہے بلکہ اس کی کاشت کا دورانیہ بھی مختصر ہے، جو پاکستان کے محدود زمینی وسائل کے لیے موزوں ہے۔ اس کے بعد دوسری فصلیں اگانے کا بھی موقع ملتا ہے جس سے زراعت کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
چینی محققین جلد ہی پاکستان میں نئی اقسام کی آزمائشی کاشت شروع کریں گے تاکہ بہترین بیج کی نشاندہی ہو سکے۔ مزید یہ کہ مقامی کسان عموماً ہاتھ سے بیج بوتے ہیں، جس کی جگہ جدید مشینری کے استعمال سے بہتر اور یکساں پیداوار ممکن ہو سکے گی۔ ساتھ ہی تل کی جڑی بوٹی مار ادویات مزدوری کی مشکلات کم کر سکتی ہیں۔