میں کہ سائر بھی ہوں ہدایت بھی
معروف شاعر ہدایت سائر کی سوانحِ حیات پر ایم اے دوشی کا دلکش اور جامع اظہارِ قلم
معروف شاعر ہدایت سائر کی سوانحِ حیات پر ایم اے دوشی کا دلکش اور جامع اظہارِ قلم
کراچی جیسے شہر میں جہاں ہر دن ایک نئی آواز، ایک نیا چہرہ، اور ایک نیا خواب جنم لیتا ہے، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ہنر، محنت اور لگن سے محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک پہچان بن جاتے ہیں۔ ہدایت سائر انہی چنندہ لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ادبی، صحافتی اور نشریاتی دنیا میں اپنی محنت سے ایسا مقام پایا جو صرف قابلیت سے نہیں بلکہ جذبے سے پیدا ہوتا ہے۔ ہدایت سائر کے اندر جو عزم، جنون اور کچھ کر دکھانے کی دُھن تھی، وہ رفتہ رفتہ اُنہیں اس مقام تک لے آئی جہاں آج وہ لاکھوں دلوں کی آواز، نوجوانوں کے لیے ایک مشعلِ راہ، اور اپنے احباب کا فخر بن چکے ہیں۔
ہدایت سائر نے اپنے کیریئر کا آغاز نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں ریڈیو پاکستان سے کیا۔ وہ لمحہ گویا ان کے سفر کی پہلی سیڑھی تھا، اور وہ سیڑھی پھر ایک بھرپور سیڑھیوں کا سلسلہ بن گئی۔ شاعری ہو یا اسکرپٹ رائٹنگ، براڈ کاسٹنگ ہو یا ہوسٹنگ، ہدایت سائر نے ہر میدان میں ایسا رنگ جما دیا کہ سننے، دیکھنے اور پڑھنے والا مجبور ہو گیا کہ کہے!
یہ تو جیسے اسی کام کے لیے پیدا ہوا ہے۔
جب وہ شاعری سناتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ ان کے دل سے نکل کر سیدھا سننے والے کے دل پر اترتے ہیں۔ ان کے اشعار صرف نظموں کی شکل میں نہیں، بلکہ جذبات، تجربات اور زندگی کی گہرائیوں کا عکس ہوتے ہیں۔ اور جب وہ ویڈیو یا ٹی وی پر میزبانی کرتے ہیں، تو اُن کی گفتگو، اُن کا اعتماد، اور اُن کا لہجہ، سامع و ناظر کو بانجھ کر دیتا ہے۔ اور پھر جب قلم اٹھاتے ہیں، تو وہ محض اسکرپٹ نہیں لکھتے بلکہ ایک احساس لکھتے ہیں، ایک تصویر بناتے ہیں، ایک زندگی جگاتے ہیں۔
پاکستان کے تمام بڑے ٹیلی ویژن اور ریڈیو نیٹ ورکس پر بطور اینکر، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر ان کی خدمات قابلِ ذکر نہیں، بلکہ قابلِ فخر ہیں۔ ان کا تخلیقی دائرہ صرف نشریاتی اداروں تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ کالم نگاری کے میدان میں بھی "حرفِ عام” کے عنوان سے مدتوں تک قارئین کے دلوں کی ترجمانی کرتے رہے۔
درجنوں کامیاب ٹی وی کمرشلز اور مقبول ڈراموں کے OSTs ان کے قلم کی پیداوار ہیں، جنہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ بین الاقوامی اداروں میں وہ نوجوانوں کی آواز بن کر سامنے آئے اور سماجی میدان میں بھی ایک متحرک کردار ادا کیا۔
بطور ٹرینر، ہدایت سائر نے نجی اور سرکاری اداروں میں بھی اپنی فکری اور پیشہ ورانہ بصیرت سے نئی نسل کو سکھانے، سمجھانے اور سنوارنے کا کام جاری رکھا۔ ان کی تربیت میں صرف علم نہیں، بلکہ زندگی کا تجربہ، انسانیت کی خوشبو، اور کامیابی کا حوصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔
آج ہدایت سائر صرف ایک فرد کا نام نہیں، ایک سفر ہے۔ ایک ایسی کہانی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عزم سچا ہو، نیت صاف ہو اور دل میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہو، تو پہاڑ جیسی رکاوٹیں بھی منزل کی راہ میں ریت بن جاتی ہیں۔
نوجوان نسل کے لیے وہ ایک روشن مثال ہیں، جنہوں نے بتا دیا کہ کسی بھی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنا کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک طاقت بن سکتا ہے۔ اگر سوچ بلند ہو، دل مخلص ہو اور مقصد واضح ہو۔
ہدایت سائر کو یہ مقام کسی نے تحفے میں نہیں دیا۔ یہ ہر لمحہ، ہر رات، ہر لفظ اور ہر جذبہ انہوں نے خود تراشا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی ذات کا فخر ہیں، بلکہ وہ ایک پوری کمیونٹی کی امید ہیں۔
یہ تحریر اُن کے لیے ایک خراجِ تحسین ہے۔ ایک سلام ہے اُن کے خوابوں، اُن کی کاوشوں اور اُن کی کہانی کو، جو صرف ان کی نہیں، بلکہ اُن سب کی ہے جو اپنی منزل خود چُنتے ہیں اور پھر تھکنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اب ان کی کچھ شاعری آپ کے ذوق کے نذر کیے دیتا ہوں۔ پڑھیے اور اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔
حضور آپ کا جس کو سہارا مل جائے
بھنورکے بیچ بھی اس کو کنارہ مل جائے
تو میرے ضبط کو اتنا نہ آزما کہ تجھے
میں آستین سے نکالوں زمیں پہ دے ماروں
بھر گئیں خون سے فصیلیں سب
یہ خبر سن چکی ہیں چیلیں سب
یہ جو تابوت ہے محبت کا
چل اٹھا لگ چکی ہیں کیلیں سب
سبھی موسم ہیں اندر کے وگرنہ اے مرے سائر
نہ یہ موسم نہ وہ موسم ہر اک بے کار کا موسم
خواب اوندھے پڑے ہیں بستر پر
کروٹوں اور سلوٹوں کے بیچ
کچھ اثاثہ تو ہو بڑھاپے کا
زخم کھا لیجیے جوانی میں
ہو گا کیا؟ گر خدائے روز جزاء
سارے سجدے جبیں پہ دے مارے
ایسے توڑے عقیدتوں کے بت
کچھ کہیں،کچھ کہیں پہ دے مارے
پھر نئے زخم کا ارادہ ہے
اس نے بھیجے ہیں تازہ پھول مجھے
منزلیں ہو گئی ہیں راہ گزر
راس آنے لگی ہے دھول مجھے
لکیریں کھینچ کر ایسا کوئی نقشہ بنائوں گا
جہاں دیوار اٹھے گی وہیں رستہ بنائوں گا
غزل کے کینوس پر شاعری کے بیس رنگوں سے
تری آنکھیں، تری زلفیں، ترا چہرہ بنائوں گا
نظر بھر سے چلا تھا میں سو آیا تھا محبت تک
ضرورت "میں” رہا تیری، مگر تیری ضرورت تک
تمہیں میں یاد رکھوں گا سراسر جھوٹ بولا تھا
میں سچ مچ بھول بیٹھا ہوں تمہاری شکل و صورت تک
تھام لے ہاتھ، ساتھ چل میرے
میں کہ سائر بھی ہوں ہدایت بھی
لوگ ملتے بچھڑتے رہتے ہیں
ساتھ رہتے ہیں عمر بھر رستے
ساتھ اپنے وہ لے گیا سائر
میرے پیروں سے کھینچ کر رستے
میں نے پھر کوئی رابطہ نہ رکھا
اس کے چہرے پہ جب پڑھا کہ گریز
زخم ملتے ہی مل گئی آنکھیں
راہ کھلتے ہی پر نکل آئے
ایک سر کیا گرا سر مقتل
اور پھر سر ہی سر نکل آئے
گھر کے حالات کا بہانہ ہے
مسئلہ مجھ تلک نہ آنا ہے
ہے مرے ساتھ ایک تو ہی تو
اور ترے ساتھ اک زمانہ ہے
ایک لڑکی بہت زمانہ ساز!
ایک سائر کہ بس دیوانہ ہے
اے خدا دیکھ لے مسیحا ترا
تیرے بیمار تک نہیں پہنچا
جب سے نکلا ہے چاند روٹی کا
کوئی بازار تک نہیں پہنچا
اب ذرا ہدایت سائر کی نظموں کا رنگ دیکھیے
محبت دائرے میں رقص
تم اکثر مجھ سے کہتے ہو
محبت یہ نہیں ہوتی ،محبت وہ نہیں ہوتی !
مجھے بس یہ بتا دو تم!
محبت کیا نہیں ہوتی؟
محبت تو ازل کی آنکھ سے لے کر
ابد کے سبز ماتھے تک
تنی وہ ڈور ہوتی ہے کہ جس میں بندھنے والوں کو
کوئی مشکل ، کوئی طوفان جدائی دے نہیں سکتا
رہائی دے نہیں سکتا
محبت صبر کے پیڑوں پہ اگنے والا پھل ہے جو
فقط اس کو ہی ملتا ہے کہ جس میں صبر ہوتا ہے
محبت کو سمجھ رکھا ہے کیا تم نے؟
یہ وہ دھاگا نہیں ہے جو ذرا سے اک کھچاﺅ پر
کبھی بھی ٹوٹ جائے گا
مقدر پھوٹ جائے گا
مرے ہاتھوں سے تیرا مخملیں سا ہاتھ اک پل میں
کہیں بھی چھوٹ جائے گا
یقیں جانو!
محبت میں کبھی ایسا نہیں ہوتا
محبت ایسی بیڑی ہے
جسے دو چاہنے والے اگر پہنیں
تو پھر وہ کھل نہیں سکتی
رہائی مل نہیں سکتی
محبت دائرہ ہے
اور ایسا دائرہ جس میں فقط بس رقص ہوتا ہے
نگاہوں میں کسی کا عکس ہو تا ہے
میں تیرے عکس کو آنکھوں میں لے کر دیکھتا ہوں تومجھے محسوس ہوتا ہے
تو سر تا پا محبت ہے
محبت دائرے میں اب مجھے تا عمر رہنا ہے
تمہارے ساتھ جینا ہے
تمہارے ساتھ مرنا ہے
محبت دائرے میں اب ہمیشہ رقص کرنا ہے
مداری
خبر کچھ اس طرح پھیلی،کہ جیسے آگ جنگل میں
کہ ہر سو گاڑیوں کا شور برپا تھا
جہاں پر کچھ مداری کیمرے لے کر تماشہ بیچنے کو آن پہنچے تھے
تماشہ ایک لڑکی کا
برہنہ جسم وہ لڑکی ، کہ جس کے گر د کچھ وحشی درندے تھے
وہی الہڑ جواں لڑکی
جسے کچھ بھیڑیوں نے اپنی خواہش میں، ہوس میں نوچ ڈالا تھا
مداری بھیڑیوں کی چال پر نظریں جمائے تھے
کسی کے ہاتھ میں مائیک، تو کوئی کیمرے مرکوز کرنے میں لگا تھا بس
مگر یہ کون بتلاتا؟
خبر سے بھی ضروری تھا، برہنہ جسم لڑکی کے بدن کو ڈھانپ لینا پر
سبھی کو ایک جلدی تھی ،براہ راست منظر کو،ہوا میں بھیجنے اور بیچنے کی بس
بریکنگ پر بریکنگ تھی
بیاں کردہ خبر کیا تھی؟تماشہ تھا بس عصمت کا
تھی جتنی سسکیاں آہیں
وہ ساری جم چکی تھی برف کی سل میں
بریکنگ اس طرح سے تھی
یہ وہ معصوم لڑکی ہے، جسے کچھ بھیڑیوں نے اپنی خواہش میں، ہوس میں نوچ ڈالا ہے
یہ اس کے جسم پر دیکھیں۔۔۔ تشدد کے نشاں دیکھیں!
یہی وہ آٹھ ملزم ہیں ،نہیں یہ سات ملزم ہیں
نہیں اور ہاں میں گھن چکر
خبر شرم و حیاء کے دائروں سے دو قدم باہر ہی نکلی تھی کہ اس لمحے
برہنہ جسم لڑکی نے،بالآخر خود کشی کر لی
آپ کی اس تحریر پر جو بھی رائے ہے ضرور کمنٹ کیجیے۔ آپ کی محبتوں کے شکریہ کے ساتھ
ایم اے دوشی