“بلوچستان پاکستان کی ثقافتی روح ہے۔ اس کے مناظر، دستکاریاں اور روایات طاقت، تخلیق اور فخر کی کہانیاں سناتی ہیں۔ ایسے پروگرام ہماری ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کو بھی مضبوط کرتے ہیں۔”ان خیالات کا اظہار وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بلوچستان گرینڈ ٹورازم فیسٹیول سے خطاب کرتے ہو ئے کیا ۔۔
افتتاحی تقریب میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے جن میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت اورنگزیب خان کھیچی، منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) آفتاب الرحمٰن رانا، سفارت کار، فنکار، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔
تقریب کا منظر رنگوں، زندگی اور ثقافتی جوش سے بھرپور تھا، جہاں بلوچی لوک موسیقاروں، رقاصوں اور دستکاروں نے صوبے کی روایات کو اسلام آباد کے دل میں اجاگر کیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ اسلام آباد کے عوام کی گرمجوشی اور محبت ہماری توقعات سے کہیں زیادہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان واقعی ایک مہمان نواز قوم ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان قدرتی حسن اور سیاحت کے بے پناہ مواقع سے مالامال ہے — بحیرہ عرب کے 700 کلومیٹر طویل ساحل سے لے کر حسین پہاڑی سلسلوں، وادیوں، باغات اور ریگستانوں تک۔
“ہمارا صوبہ ایڈونچر، ماحولیاتی، تاریخی اور ثقافتی سیاحت کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔ گڈانی سے زیارت اور ہنگول تک، ساحل سے بلند پہاڑوں تک بلوچستان کا ہر گوشہ اپنی مثال آپ ہے۔”
حکومتی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ تین سالہ سیاحت ترقیاتی منصوبہ پر عمل جاری ہے، جس کا مقصد رابطوں میں بہتری، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے کہا، “ہم نجی شراکت داروں کو بلوچستان کے سیاحتی امکانات دریافت کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہمارا صوبہ ایک بھرپور ثقافتی اور تاریخی ورثہ رکھتا ہے، بس ہمیں سیاحت کے فروغ کے لیے مناسب سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔”
وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو بلوچستان کی منفی خبریں نمایاں ہوجاتی ہیں، جس سے اس کی اصل خوبصورتی اور ثقافت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔
“آج لوک ورثہ میں جو بلوچستان دکھائی دے رہا ہے، یہی ہمارا اصل چہرہ ہے — امن، مہمان نوازی اور فن کا صوبہ۔ یہی وہ تصویر ہے جو دنیا کو دکھائی جانی چاہیے۔”
وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت، اورنگزیب کھیچی نے کہا کہ یہ تقریب پاکستان کی ثقافتی ہم آہنگی اور تنوع میں وحدت کی بہترین علامت ہے۔
انہوں نے بلوچستان حکومت کے اس اقدام کو سراہا اور وفاقی وزارت کی طرف سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تاکہ علاقائی ثقافتوں کو مشترکہ منصوبوں اور ثقافتی تبادلوں کے ذریعے فروغ دیا جا سکے۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے ثقافت، سیاحت و قانون میر زرین خان مگسی نے کہا کہ یہ فیسٹیول بلوچستان کی “حقیقی اور مثبت تصویر” کو باقی ملک اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کے وژن کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا، “ثقافت، فن اور سیاحت کے ذریعے ہم بلوچستان کو ایک پرامن، خوشحال اور مہمان نواز سرزمین کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔”
فیسٹیول میں ثقافتی پروگراموں، پینل مباحثوں، آرٹ و ہنر کی نمائشوں، کھانے پینے کے اسٹالز اور سیاحت سے متعلق ڈسپلے سمیت متعدد سرگرمیاں شامل ہیں۔
زائرین بلوچستان کے مختلف اضلاع سے لائی گئی دستکاریوں، روایتی کڑھائیوں، مٹی کے برتنوں، زیورات اور فن پاروں کے اسٹالز کا رخ کر رہے ہیں۔
بلوچی کھانوں کے اسٹالز پر سجی، کاک، روش، لندی اور تربت کی مشہور کھجوریں دستیاب ہیں، جو شائقین میں بے حد مقبول ہو رہی ہیں۔
ایک بڑی کشش بلوچی لوک داستانوں — ہانی و شہ مرید — اور مست توکلی کی شاعری پر مبنی لوک موسیقی اور رقص کے مظاہرے ہیں، جن میں موسیقی، رقص اور کہانی گوئی کے ذریعے صوبے کی رومانوی و فکری روایات پیش کی جا رہی ہیں۔
فیسٹیول کے دوران بلوچی گلوکار، موسیقار اور رقاص براہِ راست پرفارم کریں گے، جبکہ پینل ڈسکشنز میں پائیدار سیاحت، سرمایہ کاری کے مواقع، اور ثقافتی تحفظ جیسے موضوعات زیرِ بحث آئیں گے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے کاریگر اپنی مہارت کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں، تاکہ زائرین صوبے کی فنونِ لطیفہ میں تنوع کو قریب سے محسوس کر سکیں۔
“بلوچستان گرینڈ ٹورازم فیسٹیول” 12 اکتوبر تک جاری رہے گا، جو زائرین کو صوبے کی ثقافتی دولت، قدرتی حسن، اور گرمجوش مہمان نوازی کا مکمل تجربہ فراہم کرے گا۔
دن کے اختتام پر جب لوک ورثہ میں دمبورا کی آواز اور تالیوں کی گونج پھیلی تو ایک پیغام واضح تھا — بلوچستان کوئی دور دراز سرحدی خطہ نہیں بلکہ پاکستان کے ثقافتی و سیاحتی منظرنامے کا دل ہے، جو بالآخر دارالحکومت میں اپنے صحیح مقام پر منایا جا رہا ہے۔a