کالم پکار/ شیراز خان – لندن
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپؐ نے ایسی روشنی عطا کی جس نے صدیوں کی تاریکی اور جہالت کو ختم کر دیا۔ آپؐ کی سیرت ہر دور، ہر معاشرے، اور ہر فرد کے لیے رہنمائی کا کامل ذریعہ ہے۔ آپؐ کا پیغام، آپ کا اخلاق، آپ کی تعلیمات قیامت تک کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان صرف زبانی دعووں پر اکتفا کر چکا ہے۔ زبان پر عشقِ رسولؐ کے نعرے، سوشل میڈیا پر نعتیہ اشعار، اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت تو نظر آتی ہے، مگر عملی زندگی میں نبیؐ کی تعلیمات کا عکس ناپید ہے۔ ہمارے رویّے، ہمارے معاملات، ہمارے اخلاق، سب آپؐ کی سیرت سے دور جا چکے ہیں۔
ہم نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ سے محبت کا دم بھرتے ہیں، ان کی قربانی پر آنکھیں نم کرتے ہیں، مگر یزیدیت کے کردار اپنانے سے گریز نہیں کرتے۔ ہم حسینیت کے نام پر جلسے کرتے ہیں، مگر ظلم، جھوٹ، منافقت، بےحیائی اور حرص و ہوس جیسی یزیدی صفات سے خود کو جدا نہیں کرتے۔ یہ کیسی محبت ہے جس میں کردار نہیں، وفا نہیں، قربانی نہیں؟
مسلمانوں کی اکثریت اب حلال و حرام کی تمیز بھی بھول چکی ہے۔ اسلام میں رزقِ حلال کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "ایک وقت آئے گا جب انسان کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی کہ وہ مال حلال سے کما رہا ہے یا حرام سے”
(صحیح بخاری)
آج یہی وقت ہمارے سروں پر آن پہنچا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ، سود، رشوت، جعلی کاروبار سب عام ہو چکا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لیے مہنگی تعلیم، قیمتی لباس اور چمکتی زندگی تو چاہتے ہیں، مگر یہ نہیں دیکھتے کہ جو لقمہ وہ کھلا رہے ہیں وہ پاک ہے یا نہیں؟ یہی حرام رزق انسان کے دل کو سیاہ کرتا ہے، عبادت کا اثر زائل کرتا ہے، اور اخلاق کو تباہ کرتا ہے شادی کی رسومات دینی طرز پر نہیں ہونگی تو الله تعالیٰ کی رحمت بھی شامل نہیں ہو گی ۔
اسلام نے نہ صرف کھانے پینے میں حلال و حرام کی حد بندی کی ہے، بلکہ کمائی کے ذرائع، لباس، تعلقات، حتیٰ کہ تفریح تک کو اخلاقی دائرے میں رکھا ہے۔ لیکن آج مسلمان میوزیکل کنسرٹس، فحاشی و عریانی کے پیچھے بھاگتے ہوئے سب کچھ بھول بیٹھا ہے۔
جب ربیع الاوّل کا ماہِ مقدس آتا ہے، تو گلیاں سجاتے ہیں، بینرز لگاتے ہیں، اشتہاروں میں تصویریں چھپواتے ہیں، چندے اکٹھے کرتے ہیں، اور نعرے بازی میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ سب دکھاوے کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ سیرتِ رسولؐ کا نور ہماری عملی زندگی سے غائب ہے۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ میلادِ مصطفیٰؐ منانے کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ کیا صرف جلوس نکالنا، چراغاں کرنا، اور نعتیں پڑھنا کافی ہے؟ کیا اصل تقاضا یہ نہیں کہ ہم نبیؐ کی سیرت کو اپنائیں، ان کے اخلاق، ان کی سادگی، ان کی شفقت، ان کی عبادات اور ان کی انسان دوستی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں؟
قرآن مجید میں واضح ارشاد ہے:
> "اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا”
(آل عمران: 31)
سچی محبت اطاعت مانگتی ہے، فقط دعوے نہیں۔ اگر ہم واقعی رسول اللہ ﷺ اور اہلِ بیت سے محبت رکھتے ہیں، تو ہمیں ان کے راستے پر چلنا ہوگا۔ صرف حسینؑ سے محبت کا دعویٰ کر لینا کافی نہیں، جب تک ہم یزیدی صفات سے خود کو نہ چھڑائیں۔
یاد رکھیے، حسینیت صرف ماتم کا نام نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ ہے۔ حسینیت عدل، صداقت، صبر، قربانی اور دین پر استقامت کا نام ہے۔ اگر ہم یزید کی مجلسوں میں بیٹھ کر حسینؑ کا نام لیں گے، تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے طرزِ زندگی کا محاسبہ کریں۔ دین کو صرف رسموں تک محدود نہ رکھیں۔ عشقِ رسولؐ کو صرف زبان کی حد تک نہ رکھیں۔ ہمیں عملی طور پر نبی کریم ﷺ کے راستے کو اپنانا ہوگا۔ تبھی ہم سچے عاشق کہلا سکیں گے، تبھی ہماری محبت، ہمارے نعرے، اور ہماری محفلیں بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوں گی۔