پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین … حقِ شہری یا کاغذی دعویٰ؟

عالمی معاہدات اور آئینی اصلاحات کے باوجود پاکستان میں معلومات تک رسائی کا حق سیاسی مصلحتوں، بیوروکریسی کی مزاحمت اور کمزور عملدرآمد کی بھینٹ چڑھ گیا۔

0

شکیلہ جلیل

shakila.jalil01@gmail.com

دنیا بھر میں 28 ستمبر کو عالمی یومِ معلومات تک رسائی اس عہد کی یاد دہانی کے طور پر منایا جاتا ہے کہ شہری اور ریاست کا تعلق

شفافیت اور اعتماد پر قائم ہونا چاہیے۔ سویڈن سے دو صدیوں قبل اٹھنے والی یہ تحریک آج ایک عالمی اصول کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جہاں معلومات کو چھپانے کے بجائے عوام کے سامنے لانا اچھی حکمرانی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس دن کی اصل روح یہی ہے کہ جمہوریت اسی وقت سانس لیتی ہے جب شہری اپنی حکومت کے فیصلوں اور وسائل کے استعمال سے باخبر ہوں۔

پاکستان میں بھی آئینی ترامیم اور صوبائی قوانین نے معلومات تک رسائی کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا، لیکن حقیقت اس خواب سے کہیں مختلف ہے۔ بیوروکریسی کی مزاحمت، سیاسی مصلحتوں اور کمزور انفارمیشن کمیشنز نے اس حق کو کاغذی وعدے سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ عوامی آگاہی کی کمی اور اداروں کا غیر سنجیدہ رویہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ یوں ہر سال جب دنیا یہ دن شفافیت کے عزم کے ساتھ مناتی ہے تو پاکستان میں یہ سوال پھر سے زندہ ہو اٹھتا ہے: کیا معلومات تک رسائی واقعی عوامی طاقت ہے یا صرف ایک قانون کی کتاب میں درج سطور؟

معلومات تک رسائی کا آغاز 1766 میں سویڈن سے ہوا جب فریڈم آف دی پریس آرڈیننس کے تحت عوام کو پہلی بار ریاستی معلومات تک قانونی حق دیا گیا۔
بیسویں صدی میں یہ حق انسانی حقوق کے عالمی ڈھانچے کا لازمی جزو بن گیا۔ اقوام متحدہ کے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) اور انٹرنیشنل کونویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (ICCPR) کے آرٹیکل 19 نے معلومات تلاش کرنے اور پھیلانے کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا۔ پاکستان نے ICCPR کی توثیق 23 جون 2010 کو کی۔

اسی طرح، اقوام متحدہ کا کنونشن اگینسٹ کرپشن (UNCAC) 2003 میں منظور ہوا، جس کے آرٹیکل 10 نے شفافیت کے لیے معلومات کی فراہمی کو لازمی قرار دیا۔ پاکستان اس معاہدے کا حصہ 2007 میں بنا۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے بھارت، میکسیکو اور سری لنکا نے اس حق پر مؤثر قوانین بنائے، تاہم بعض ممالک میں یہ قوانین محض کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔

پاکستان نے 2002 میں فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس نافذ کیا، لیکن یہ عوام کو مکمل تحفظ دینے میں ناکام رہا۔
2010 میں آئین کی 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 19-اے شامل کیا گیا، جس نے معلومات تک رسائی کو شہریوں کا آئینی حق قرار دیا۔
بعد ازاں 2017 میں رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ منظور ہوا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن قائم کیا گیا۔

نجاب اور خیبرپختونخوا نے 2013 میں اپنے قوانین متعارف کرائے، جن میں خیبرپختونخوا کا قانون زیادہ مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

سندھ نے 2016 اور بلوچستان نے 2021 میں معلومات تک رسائی کے قوانین نافذ کیے۔

اگرچہ قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سرکاری ادارے اکثر معلومات فراہم کرنے میں تاخیر کرتے ہیں یا انکار کر دیتے ہیں۔ انفارمیشن کمیشنز کے پاس وسائل محدود ہیں جبکہ عوامی سطح پر اس حق کے بارے میں آگاہی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔اکستان میں معلومات تک رسائی کے قوانین بین الاقوامی معاہدات اور آئینی اصلاحات کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔ یہ قوانین شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ تاہم اصل چیلنج ان پر مؤثر عملدرآمد ہے۔ جب تک ادارے جواب دہ نہیں بنائے جاتے، عوامی آگاہی نہیں بڑھتی اور سیاسی عزم پیدا نہیں ہوتا، تب تک یہ قوانین اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکیں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.