کربلا: بقا، نجات، عزت و شرف کا راستہ
امام حسینؑ کی بے مثال قربانی، آج بھی ظلم کے خلاف حریت، استقامت اور دین کی سربلندی کا روشن مینار
امیر سواگ
ریگزارکربلا پر رسالت ونبوت کے پروردہ ،نواسہ ء رسول حضرت امام حسین ؑ نے اکسٹھ ہجری روز عاشور کو ایسی بے مثل قربانی دی جو رہتی دنیا تک حق کے پرستاروں اورحریت و آزادی کے علمبرداروںکو راہ ِہدایت و منارہ ء نور کا کام دیتی رہے گی۔بلا شک و شبہ کربلا کی تحریک ابی تحریک ہے جو ہمیں یہ دعوت فکر دیتی ہے کہ آیا کربلا صرف ذکر مصائب کا نام ہے،چند آنسو بہانے سے کربلا کاحق ادا ہو جاتا ہے،شہدا ء کے تڑپتے لاشوں کو یاد کر کے فقط سینوں پہ ہاتھ مار کے اس عظیم قربانی کا مقصد پوراہو جاتا ہے ،اکسٹھ ہجری کے یزیدابن معاویہ کو لعن طعن کر کے اس کردار سے نفرت کا حق ادا ہوجا تا ہے جو اس نے خانوادہ نبوت و عصمت و طہارت کے ساتھ ادا کیا تھا۔۔ تو ہر زندہ ضمیر کا جواب ہو گا۔۔ نہیں۔۔ہرگز نہیں، بلکہ امام حسین ؑ اور کربلا تو ہمارے لیئے رہتی دنیا تک ایک عظیم درسگاہ کا نام ہے یہ تعلیم و تربیت اور انسانی رفعتوں و سربلندیوں کے راستے پر گامزن ہو کرمختلف زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو نجات دلانے کا نام ہے۔ کربلا حریت و آزادی کے نغموں ،اور شہادت و قربانی کے سرود گنگنانے کا نام ہے۔کربلا تلوار پر فتح کی حکمرانی قائم ہونے کا نام ہے۔کربلا دلوں کو مسخر کر کے ان پر حکمرانی کرنے اور غیرت و حمیت کے نہ بجھنے ولے چراغ روشن کرنے کا نام ہے،کربلا ایک لگاتار پکار کا نام ہے جو ہر ظلم کا مقابلہ کرنے والے کی پکار ہے، جو ہر ظالم کے خلاف برسر پیکار ڈٹ جانے والے کی پکار ہے۔کربلا ضمیروں کو بیدار کرنے کا نام ہے جو قیام ِقیامت تک جاری رہیگا،کربلا اس تحریک کا نام ہے جسے زوال نہیں ،کربلا اس قربانی کا نام ہے جس کی دوسری مثال نہیں،ہمیں محرم الحرام کے ایام میں کم از کم اس احساس و فکر کو ذہنوں اور خیالوں میں لانا چاہیے کہ آج دنیا میں کون سی یزیدی فتنہ گر،اور یزیدیت کے پروردہ کیسے یزیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔کہاں ظلم ہو رہا ہے اور اس کے سامنے فرزند رسول کی طرح کیسے قیام کرنا ہے،آج فلسطین کا محاذ ہو یا ،کشمیر کی سرسبز وادیاں ہوں یا یمن و شام کے تاریخی اسلامی ممالک ہوں یا جمہوری اسلامی پہ وقت کے فرعون و یزید اور اس کے لے پالک کی یلغار،اہل غزہ کی پکار ہو یا لبنان کی سرزمین سے اٹھنے والی صدائےھل من،ہمیں ہر جانب دھیان دینا ہے،فکرِکربلا کے وارثوں کا کردار اداکرنے کیلئے وراثت پہ جان چھڑکنا ہو گی،کربلا کی وراثت دین ہے،دین الہیٰ،احکام دین جسے یزید ختم کرناچاہتا تھا،کربلا کی وراثت ہماری ماءوں بہنوںکا پردہ ہے جسے یزید ختم کر نا چاہتا تھا،کربلا کی وراثت جہاد و شہادت ہے جس کو پیش کر کے دین کی بقا و بیمہ ممکن ہوا۔لہذا اپنے کرداروںکو اس سانچے میں ڈھالنا کربلا کا اسوہ ہے جو امام حسین ؑ اور ان کے باوفا ساتھیوں نے ادا کیا،آج ہم ہر سو امت مسلمہ کی ابتلا اور مصیبتوں کی تصویریں دیکھ سکتےہیں،ان سب مسائل کا حل امام حسین ؑنے میدان کربلا میں یزید پلید کو للکار کے دیا تھا،کیا ہم آج کے یزیدان کو للکارتے ہیں۔
کربلا آج بھی ہے ایک لگاتار پکار
ہے کوئی پیروی ابن علی پہ تیار
فرزند رسول ،جگر گوشہ ء بتول حضرت امام حسین ؑنے جب دیکھا کہ ان کے ناناؐ کے لائے ہوئے دین اسلام کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اسلامی مقدسات کی توہین بر سر ِ منبر ہو رہی ہے تو آپ نے اپنا فرض سمجھا کہ اس کو روکنا ہے،اس کیلئے کردار ادا کرنا ہے لہذا آپ نےحریت و آزادی کا نقارہ بجا دیا اور مکہ کو حالت احرام میں خیر آباد کہا ،آپ نے اس وقت مکہ کو چھوڑا جب دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج مکہ میں موجود تھے ،مکہ جسے جائے امن کہا گیا تھا اور جہاں کسی چیونٹی کا مارا جانابھی خداوند کریم کو منظور نہیں وہاں فرزند نبی کا خون بہائے جانے کی سازش کی گئی تھی آپ ؑ نے اس حالت میں احرام توڑے اور مکہ کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر کربلا کے بے آب و گیاہ صحرا میں خیمہ زن ہو نے چلے ،آپؑ نے اپنے نانا ؐکے دین کوبچانے کیلئے وقت کے بد ترین حکمران سے ٹکر لی اور کسی بھی طرح کی قربانی سے گریز نہیں کیا۔دس محرم اکسٹھ ہجری کے دن ناناؐ کی امت نے آپ ؑ کے اپنے جاں نثار ساتھیوں ،عزیزوں اور نوجوانان بنی ھاشم کو شہید کر دیا،امت نے آپ کے انتہائی محترم ومقدس اہل بیت ؑ کوانتہائی توہین آمیز انداز میں اسیر کر لیا اور بے غیرتی کی تمام حدود عبور کرتے ہوئے انہیں مجبور کیا کہ وہ بازاروں اوردرباروں میں بے مقنہ و چادر نظر آئیں مگراللہ کا نظام و انتظام کا کیا کہنا کہ اس نے اپنے دین کا پیغام انہی اسیروںکے ذریعے پھیلانے کا انتظام کر دیا جوقیدیوں کی صورت میں ان کے دربار میں ان کے سامنے لائے گئے تھے جنہیں خلیفہ المسلمین کا باغی قرار دیا جا رہا تھا تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ وہ جب بازاروں میں درباروں میں اپنی خاندانی انفرادیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لہجہ محمد و علی ؑمیںمخاطب ہوئے تو لوگ انگشت بہ دندان رہ گئے۔بنت علی سیدہ زینب سلام ،سیدہ ام کلثوم سلام اور امام زین العابدین ؑ کے بے مثل خطبات نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بالخصوص اہل کوفہ جو اپنے رنگ بدلنے میں ثانی نہیں رکھتے تھے مارے شرم کے گردنیں جھکائے نظر آئے،زاروقطار روتے دکھائی دیئے۔امام زین العابدین ؑ نے ایک موقع پر ان کو خاموش رہنے کا کہاامام ؑ کا اشارہ پاتے ہی سارے مجمع پر سکوت طاری ہو گیا۔امام ؑنے حمد و ثناء باری تعالیٰ کے بعد ارشاد فرمایا۔
اے لوگو! میں علی ہوں ۔حسین ابن علی ابن ابی طالب کا بیٹاہوں۔۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔۔میں اس کا فرزند ہوں جسے فرات کنارے پیاسا شہید کیا گیا ۔۔۔جس کے حرم کو اسیر کر کے کشاں کشاں پھرا رہے ہیں ۔۔اے لوگو! ذرا تصور کرو اس وقت جب کہ قیامت کے دن تم لوگ رسول خدا ؐسے ملاقات کرو گے اور وہ اس وقت تم سے سوال کریں گے کہ تم نے میرا کلمہ پڑھتے ہوئے میری اولاد کو قتل کر ڈالا اور ذرا بھی میرا لحاظ نہیں کیا تو تم میری امت سے نہیں ہو۔
امام ؑ کے ایک ایک لفظ نے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاواقعہ کربلا کے دردناک پہلوئووں کو بیان کر کے اپنی مظلومیت اور دشمنان دین کی بدکرداری کا بھانڈا پھوڑ دیا،یہ آپؑ کے خطبات کا نتیجہ تھا کہ یزیدیوں کی ظاہری فتح کو شکست میں بدل دیا اور حسینیوں کی فتح مجسم ہو کر سامنے آگئی۔آپ کے یہی خطبات ہی تو عزاداری کہلاتے ہیں جنہیں آج ہم مجالس و محافل میں بیان کرتے ہیں یہ سیدہ کی سنت ہی تو ہے ،یہ امام زین العابدین ؑکا بتایا ہوا راستہ ہی تو ہے جسے ا ٓج شہر شہر ،گلی گلی اپنایا جاتا ہے ،عزاداری کے ذریعے پیغام رسانی،حق گوئی کی بنیاد سیدہ زینب سلام اللہ ،سیدہ ام کلثوم سلام اللہ اور امام زین العابدین ؑ کے بے مثل خطبات سے پڑی ،یہ اسی عزاداری کی بدولت ہے جس سے اسلام کی بقا ممکن ہوئی اور کلمہ لاالہٰ الااللہ بچ گیا ۔یزید کا ناپاک منصوبہ کہ نہ کوئی وحی آئی نہ کوئی فرشتہ کا نظریہ و اعتقاد اسی عزاداری کی بدولت غلط ثابت کیا گیا، یزید بہ ظاہر تو کربلا کے لق و دق صحرا میں اما م حسین ؑ اور انصار و اعوان کو شہید کر کے جشن فتح منا رہا تھا اس ظاہری فتح کو خطبات سیدہ ؑ زینب نے شکست میں بدل دیا تھا۔
حق و باطل کی طویل معرکہ آرائی آج بھی جاری ہے ہم سمجھتے ہیں کہ کربلا کے واقعہ کے بعد حق و باطل کے معیارات اور نام بدل چکے ہیں اب حق کا نام حسین ؑہے اور باطل کا نام یزید ہے اگر کوئی اسوہ ء حسینی پر چلے گا ، حسینی کام کرے گا تو اس کا حشر پیغمبر اکرمؐ اور امام حسین ؑ کے ساتھ ہو گا جبکہ باطل پرست یزید کی ہمراہی میں خدا کے حضور پیش کیئے جائیں گے رسول اللہؐ نے یہ فرما دیا تھا کہ ” حسین منی و انا من الحسین” ،حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ حسینؑ، رسول پاکؐ کے نواسے ہیں اور جہاں پیغمبر اکرم ؐ ہیں وہاں امام حسین ؑ ہیںپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کے دلوں میں محبت رسول ؐ تو ہو محبت امام حسین ؑ نہ ہو،جسے دعویٰ محبت رسول ہے اسے ثابت کرنا ہے کہ ان کے نواسہ سے بھی محبت ہے اگر ایسا نہ ہو تو یہ دعویٰ جھوٹا ہو گا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی بتا دیا کہ،، احب اللہ من احب حسینا۔اللہ اس سے محبت کرتا ہے جس نے حسین ؑ سے محبت کی۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج دنیا جیسے جیسے علمی و شعوری ترقی ہو رہی ہے امام حسینؑ کی محبت کا چراغ روشن ہو رہا ہے جبھی تو شاعر نے کہا ہے
کہ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؑ
آج کی جدید ،مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی بعض لوگ یزیدی افکار پر عمل پیرا ہیں اور خود کو اسلام کے ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے انسانیت کے خلاف برسر پیکار ہیں اسلام کی مسخ شدہ تصویر دنیا کے سامنے لا رہے ہیں اور بدنامی کا باعث بن رہے ہیں جس کا مقصد فقط اسلام کے پھیلائو اور ترویج کے سامنے بند باندھنا ہے آج ایسے عناصر کے شر سے امت مسلمہ محفوظ ہے اور نہ یہ ملک و ملت،جگہ جگہ شہر شہر قتل گاہوں اور تخریب کاریوں کے دلدوزمناظر، اس وقت ایسی قیادت و سیادت کی ضرورت ہے جو امت کو ایک کرنے کا کام کر سکے ،جو استعماری طاقتوں کی لگائی آگ کو بجھانے کا کام کر سکے جس پر امت اسلامیہ کو اعتماد ہو اور جسے امت کا پاس ہو احساس ہوجو اسوہ ء حسینی کے ساتھ میدان میں کود پڑے اور زنجیروں میں جکڑی ،مسائل کی شکار،مصیبتوں اور آفات کی شکار محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو نجات دلا سکے اور امت اسلامیہ فتویٰ سازی سے لے کر قتل و غارت تک اور بم دھماکوں سے لیکر بیگناہ انسانوں کو ذبح کیئے جانے تک کے تمام یزیدی افعال و کرداروں کو نیست و نابود کر سکے اور اسلام کا روشن و تابندہ چمکتا چہرہ دنیا کے سامنے لا سکے ۔
رہبر معظم امام خامنہ ای کی شکل میں اس نعمت عظمیٰ سے امت کو بھرپور مستفید ہونا چاہیے اور اپنی فکر و فلسفہ اور راستے کا انتخاب انہی کی جانب دیکھ کے کرنا چاہیے اسی میں کامیابی ہے ،ایران اس وقت امت مسلمہ کی قیادت کرنے کا اہل ثابت ہو چکا ہے امت کے بہت سے طبقات نے حالیہ جنگ میںجمہوری اسلامی ایران سے اپنی بے پناہ محبت اور امام خامنہ ای سے اپنی عقیدت نچھاورکرتے ہوئے وحدت و اخوت اور برداشت و مزاحمت و استقامت کے راستہ کو چن لیا ہے انشا ء اللہ اسی راستے سے امت مسلمہ کامیابیاں سمیٹے گی،یہی کربلا کا راستہ ہے،یہی کامیابی کا راستہ ہے یہی حق و انصاف کا راستہ ہےیہی نجات کا راستہ ہے ،یہی بقا کا راستہ ہے۔