اسلام آباد میں قانونی اصلاحات کے بعد کم از کم شادی کی عمر کے یکساں قانون کا مطالبہ زور پکڑ گیا
این سی ایس ڈبلیو کی ماہر قانون وائزہ رفیق نے شادی کے لیے 18 سال کی کم از کم عمر کو قومی سطح پر نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کم عمری کی شادی کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
اسلام آباد: نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو) کی ماہر قانون وائزہ رفیق نے پاکستان بھر میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ثقافتی روایت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔
وائزہ رفیق نے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں حال ہی میں منظور ہونے والے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ 2025 کا خیرمقدم کیا، جس میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قدم کو سول سوسائٹی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقوں نے سراہا ہے، تاہم اس وقت یہ قانون وفاقی شرعی عدالت میں زیرِ غور ہے کیونکہ کچھ قدامت پسند حلقے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
وائزہ رفیق نے کہا کہ کم عمری کی شادی کوئی نجی ثقافتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ تعلیم، صحت اور جسمانی خودمختاری جیسے بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اسے قومی انسانی حقوق کی ایمرجنسی قرار دیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں اس حوالے سے قانونی فریم ورک غیر متوازن ہے۔ سندھ نے 2013 میں سب سے پہلے ایسا قانون منظور کیا، لیکن پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اب بھی 1929 کے پرانے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت 16 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کی اجازت ہے۔ وائزہ رفیق نے کہا کہ یہ قانونی فرق صنفی مساوات کی نفی کرتا ہے اور آئین پاکستان، خاص طور پر آرٹیکل 25 اور 25-اے، کے خلاف ہے جو تعلیم اور مساوی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔
انہوں نے اس دعوے کو مسترد کیا کہ شادی کی عمر 18 سال کرنا غیر اسلامی ہے، اور بتایا کہ مصر، تیونس، مراکش، ترکی اور سعودی عرب جیسے مسلم ممالک میں اب 18 سال سے کم عمر کی شادی کے لیے عدالتی منظوری لازمی ہے۔ وائزہ رفیق نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے بھی سندھ کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا تھا کہ شادی کی عمر کو ریگولیٹ کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں ہے۔
یونیسف کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 18 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں، جس کا نتیجہ جلدی حمل، تعلیم سے محرومی اور طویل مدتی غربت کی صورت میں نکلتا ہے۔ وائزہ نے کہا کہ کم عمری کی شادی گھریلو تشدد کے خطرات کو بھی بڑھاتی ہے اور نوجوان لڑکیوں کی معیشت میں شراکت کو محدود کر دیتی ہے۔
انہوں نے عظمیٰ واحد بنام صوبہ پنجاب کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ 16 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی تعلیم اور صنفی مساوات کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو کہ قومی سطح پر یکساں قانون سازی کے لیے مضبوط قانونی دلیل فراہم کرتا ہے۔
وائزہ رفیق نے مزید کہا کہ 2022 کے سیلاب، جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، کے بعد کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوا کیونکہ متاثرہ خاندانوں نے اس کو بطور حکمتِ عملی اختیار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ خاص طور پر قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں قانونی تحفظات کی اشد ضرورت ہے۔