"ایف آئی آر میں تاخیر، انصاف میں رکاوٹ” , سپریم کورٹ کا پولیس رویے پر سخت مؤقف
کمزور طبقات کو نظرانداز کرنا اختیارات کا ناجائز استعمال ہے، پولیس رویہ عوامی اعتماد اور آئینی ریاست پر سوالیہ نشان ہے — جسٹس اطہر من اللہ
سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر یا انکار، خاص طور پر کمزور اور محروم طبقات کے معاملات میں، اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہے، جو انصاف کے عمل کو متاثر کرتا ہے اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ عدالت نے یہ بات اپنے 30 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہی، جو تین رکنی بینچ نے جاری کیا۔ اس بینچ کی سربراہی جسٹس اطہر من اللہ کر رہے تھے جبکہ جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان بھی شامل تھے۔
یہ فیصلہ سیتا رام کی اس جیل اپیل پر جاری کیا گیا، جسے 18 اگست 2018 کو عمرکوٹ میں قتل کے الزام میں ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی، اور جسے سندھ ہائی کورٹ نے 15 مارچ 2023 کو برقرار رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس جیل پٹیشن کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوئے مختصر حکم کے ذریعے سیتا رام کو بری کر دیا، جس کی بنیاد طریقہ کار کی سنگین خلاف ورزیوں اور ناقابلِ اعتبار شواہد پر رکھی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں کہا کہ پولیس اسٹیشن کے انچارج کی جانب سے فوجداری قانون کی دفعہ 154 کے تحت اپنی قانونی ذمہ داری کو جان بوجھ کر یا غفلت سے پورا نہ کرنا ایک سنگین کوتاہی ہے اور قانونی اختیارات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق یہ رویہ عوام کے نظامِ انصاف پر اعتماد کو ختم کرتا ہے، اور عوام بجا طور پر پولیس کو بااثر طبقے کے مفادات کا محافظ سمجھنے لگتے ہیں۔
عدالت نے خبردار کیا کہ ایسا طرزِ عمل پولیس اسٹیٹ کی علامت ہے، نہ کہ ایک آئینی ریاست کی، جہاں قانون کی بالادستی ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ کیس صرف ایک مثال ہے جو مجموعی نظامِ انصاف پر منفی روشنی ڈالتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس اسٹیشن کے انچارج کو ایف آئی آر کے اندراج سے انکار یا اس میں تاخیر کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، اور اگر کوئی معقول وجہ نہ ہو تو یہ عمل متاثرہ فریقین کے حقوق کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شواہد میں چھیڑ چھاڑ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور معصوم افراد جھوٹے مقدمات کی زد میں آ سکتے ہیں۔
عدالت نے سندھ پولیس چیف اور قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ فوجداری قانون کی واضح خلاف ورزی کیوں ہوئی۔ جواب میں دیے گئے جواز، جیسے کہ ثقافتی روایات، مدعی کی مرضی، مصالحت کی کوشش، مذہبی عقائد یا طبی ترجیحات کو عدالت نے ناقابلِ قبول اور غیر متعلقہ قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ ان جوازوں کی گنجائش قبائلی یا فرسودہ نظام میں ہو سکتی ہے، لیکن ایک آئینی ریاست میں، جہاں ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں، ان کی کوئی جگہ نہیں۔
عدالت نے واضح طور پر کہا کہ ایسے جواز تسلیم کرنا اس امر کا اعتراف ہے کہ پولیس اور نظامِ انصاف طاقتور طبقے کے زیرِ اثر ہیں، نہ کہ قانون کے تابع۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی جرم کی اطلاع ملنے پر، خواہ وہ رپورٹ کی گئی ہو یا نہیں، پولیس کا فرض ہے کہ اسے ریکارڈ کرے اور تفتیش کرے۔ جب پولیس ایسا نہیں کرتی تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ سماجی یا سیاسی دباؤ کے تحت کام کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت دی کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہ ہو، اگر معاملہ کسی قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم سے متعلق ہو۔ عدالت نے متعلقہ حکومتوں کے پراسیکیوٹر جنرلز کو مشورہ دیا کہ وہ پولیس کو رہنمائی فراہم کریں اور ایس او پیز تیار کریں جو فوجداری قانون کے مطابق ہوں۔
فیصلے کے اختتام پر عدالت نے ریاست کی ذمہ داری پر زور دیا کہ وہ پولیس افسران کے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرے کہ قانونی فرائض پوری دیانت داری سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ عدالت نے یاد دلایا کہ ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ پولیس کو عوام کی خدمت کا ادارہ بنائے، نہ کہ دباؤ اور کنٹرول کا ذریعہ۔