تحریر : ایم اے دوشی
آزاد جموں و کشمیر کی فضائوں میں ایک بار پھر احتجاج کی گونج ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے 29 ستمبر کو ایک بڑے احتجاج کی کال دی ہے اور اس سے پہلے ہی حکومتِ آزاد کشمیر نے وفاق سے پولیس طلب کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر کے آنے والے دنوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ بظاہر یہ ایک احتجاجی تحریک ہے، مگر اس کے دل میں برسوں کی محرومیوں کا بوجھ اور آئندہ نسل کی امیدیں چھپی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ تحریک عوام کو کہاں لے جائے گی؟ اور کیا یہ ایک مثبت اصلاحی کوشش بنے گی یا خدانخواستہ بغاوت کی چنگاری کو ہوا دے گی؟یہ احتجاج کسی وقتی مسئلے کا ردِ عمل نہیں۔ اس کا پس منظر دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے دس نکاتی ایجنڈا دیا ہے، مگر ان میں سے پانچ مطالبات سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مطالبات صرف سیاسی نعرے نہیں بلکہ کشمیری عوام اور پاکستان کے نوجوانوں کی اجتماعی امنگوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ زور جس مطالبے پر دیا جا رہا ہے وہ اسمبلی میں مہاجرینِ مقیم پاکستان کے لیے مخصوص نشستوں کا خاتمہ ہے۔ دلیل یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کی اپنی نمائندگی کمزور ہو جاتی ہے جب بیرونِ خطہ ووٹ ڈالنے والے اسمبلی کے فیصلوں میں اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ نشستیں تاریخی پس منظر میں اپنی جگہ پر تھیں، مگر اب وقت آگیا ہے کہ مقامی آبادی کو براہِ راست اپنی تقدیر کے فیصلے کرنے کا حق دیا جائے۔ دنیا کی ہر جمہوریت میں نمائندگی کا اصول "ایک فرد، ایک ووٹ” پر استوار ہے، اور کشمیری عوام بھی اسی اصول کو اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں یکساں نظامِ تعلیم کا مطالبہ اس تحریک کا سب سے روشن پہلو ہے۔ یہ مطالبہ صرف کشمیری نہیں، پاکستان بھر کے نوجوانوں کی آواز ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ فن لینڈ کا تعلیمی ماڈل دنیا بھر میں مثالی مانا جاتا ہے جہاں سرکاری اور نجی اداروں میں نصاب کا فرق نہیں۔ برطانیہ، جرمنی اور جاپان میں بھی یکساں تعلیمی ڈھانچہ طلبہ کو مساوی مواقع فراہم کرتا ہے۔ جب ایک ملک کے اندر مختلف نصاب ہوں تو معاشرتی طبقات میں تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر کے نوجوان یہ تقسیم مٹانا چاہتے ہیں تاکہ ہر طالب علم اپنی صلاحیت کے مطابق آگے بڑھ سکے، نہ کہ نصاب کی تفریق کے باعث پیچھے رہ جائے۔
سرکاری اداروں میں میرٹ پر بھرتیوں کے مطالبے کی اگر بات کی جائے تو یہ سب سے بنیادی مطالبہ اس حوالے سے بھی ہے کہ سفارش اور اقربا پروری نے نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں سرکاری ملازمتوں کا نظام سخت امتحانات اور شفافیت پر مبنی ہے، جس کے باعث وہاں کے نوجوانوں کو یقین ہوتا ہے کہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ اگر آزاد کشمیر میں بھی میرٹ کو اولین حیثیت دی جائے تو نہ صرف بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا بلکہ نوجوانوں میں امید کی کرن بھی روشن ہوگی۔دیکھا جائے تو عوامی مسائل کے حل کے لیے سب سے موثر پلیٹ فارم مقامی حکومتیں ہوتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں بلدیاتی ادارے اکثر کاغذی کارروائی سے آگے نہیں بڑھتے۔ ترکی، بھارت اور یہاں تک کہ نیپال جیسے ممالک میں بھی مقامی حکومتوں کو بھرپور اختیارات دیے گئے ہیں۔ کشمیری عوام یہ چاہتے ہیں کہ ترقیاتی بجٹ براہِ راست عوامی نمائندوں کے ذریعے خرچ ہو تاکہ گلی محلوں کے مسائل وہیں حل ہوں جہاں وہ جنم لیتے ہیں۔
پاکستان ہو یا آزاد کشمیر، ایک عجیب سا ڈالا کلچر ہمارے معاشرے پر مسلط ہے۔ بڑے بڑے افسران، وزرا اور بااثر افراد جب گزرتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے ڈالیوں کے قافلے چلتے ہیں۔ عام شہری تو ایک طرف، سڑک پر کھڑا معمولی سا سیکیورٹی گارڈ بھی ان کے شور اور رعونت سے تنگ آ جاتا ہے۔ یہ ڈالا کلچر اس قوم کے مزاج پر ایک ایسا بوجھ ہے جو عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے کو اور بڑھا دیتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تویہ بھی ایک بڑا نکتہ ہے جس پر عوام متفق ہیں۔ جب حکمران طبقہ لگژری گاڑیوں، بھاری تنخواہوں اور غیر ضروری پروٹوکول سے لطف اندوز ہو اور عوام بجلی کے بل اور روزمرہ اشیا کے بحران میں پس رہے ہوں تو یہ ہم سب کیلئے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سادگی اپنانے والے رہنما زیادہ مقبول اور موثر ثابت ہوئے ہیں۔
کشمیری عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ وسائل پر صرف اشرافیہ کا قبضہ نہ ہو بلکہ وہ عوامی فلاح پر خرچ ہوں۔یہ تحریک براہِ راست نوجوانوں کے دلوں کو چھو رہی ہے۔ اگر یہ مطالبات پورے ہوئے تو نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ان کی آواز سنی جا سکتی ہے، ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، اور وہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لا سکتے ہیں۔لیکن اگر یہ آواز دبائی گئی یا طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی تو یہ مایوسی ایک ایسی سمت لے جا سکتی ہے جو معاشرے کو غیر مستحکم کرے۔
پاکستان ہمیشہ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر یہ موقف رکھتا آیا ہے کہ کشمیری عوام کو اپنی قسمت کے فیصلے کا حق دیا جائے۔ اگر آزاد کشمیر میں ہی عوامی آواز کو نظرانداز کیا گیا یا ریاستی مشینری کے ذریعے طاقت آزمائی کی گئی تو یہ موقف کمزور ہو جائے گا۔ عالمی سطح پر مخالف قوتیں یہی کہیں گی کہ جب آپ اپنے حصے کے کشمیر میں عوامی مطالبات کو برداشت نہیں کرتے تو مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کی بات کیسے کر سکتے ہیں؟ اس پہلو کو نظرانداز کرنا پاکستان کے لیے سفارتی سطح پر نقصان دہ ہوگا۔
اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے اندر کچھ عناصر ایسے ہیں جنہوں نے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے۔ ان کے لہجے میں بغاوت کی بو محسوس ہوتی ہے جس نے ایک مثبت تحریک کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ اگر ان عناصر کو کنٹرول نہ کیا گیا تو عوامی امنگوں کا یہ سفر بداعتمادی اور انتشار کی نذر ہو سکتا ہے۔آزاد کشمیر کی یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ ایک سوال ہے۔ یہ سوال نوجوانوں کی آنکھوں میں جھلکتا ہے، یہ سوال مائوں کی دعائوں میں سنائی دیتا ہے، یہ سوال پاکستان کی گلیوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کے پاس دو راستے ہیں؟یا تو وہ اس آواز کو دبائے اور آنے والے کل کو مزید اندھیروں میں دھکیل دے، یا پھر دانشمندی سے ان جائز مطالبات کو تسلیم کرے اور عوام کو وہ یقین دلائے جس کی وہ برسوں سے منتظر ہیں۔بقول احمد فرہاد
یہ جنگ فیصلہ کن موڑ پر ہے اس سے کہو
ہوا کی صف میں چلا جائے یا چراغ بنے
وقت کا تقاضا یہی ہے کہ طاقت کو نہیں، مکالمے کو راستہ دیا جائے۔ یہ تحریک اگر انصاف کے دروازے کھولے تو یہی نوجوان مستقبل کے معمار ہوں گے، اور اگر اسے کچلا گیا تو یہی نوجوان بغاوت کے استعارے بن جائیں گے۔۔