لال کتاب میری نظر میں
یہ کتاب اصلا ہندی زبان میں نہیں بلکہ "اردو زبان" میں لکھی گئی۔اس کا پہلا ایڈیشن سنہ 1939ء کو "لال کتاب کے فرمان" کے نام سے شائع ہوا،دوسرا ایڈیشن 1942 کو مزید اضافہ کے ساتھ "لال کتاب کے ارمان" کے نام سے شائع ہوا اور حتمی ایڈیشن 1952ء کو "لال کتاب" کے نام سے کامل شائع ہوا۔
تحقیق:سید وحید عباس کاظمی
آپ نے "لال کتاب” کا نام تو سنا ہوگا۔جو کہ علم جوتش یا علم النجوم(Astrology) میں برصغیر میں پایہ کمال رکھتی ہے خاص کر ویدک علم النجوم میں اس کو ام الکتب کی حیثیت حاصل ہے۔یہ کتاب ہندوستانی پنجاب کے ضلع جالندھر کے موضع فروانہ کے ماہر علم جوتش پنڈٹ روپ چند زتشی نے تحریر کی۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب اصلا ہندی زبان میں نہیں بلکہ "اردو زبان” میں لکھی گئی۔اس کا پہلا ایڈیشن سنہ 1939ء کو "لال کتاب کے فرمان” کے نام سے شائع ہوا،دوسرا ایڈیشن 1942 کو مزید اضافہ کے ساتھ "لال کتاب کے ارمان” کے نام سے شائع ہوا اور حتمی ایڈیشن 1952ء کو "لال کتاب” کے نام سے کامل شائع ہوا۔کتاب کے نام "لال کتاب” کی وجہ تسمیہ منگل(مریخ) نیک کے سبب رکھی گئی۔تبھی اس مناسبت سے کتاب کو لال رنگ کی جلد میں شائع کیا گیا۔
یہ کتاب پنڈت روپ چند زتشی نے دوران سروس ملٹری اکاونٹنٹ لاہور(پاکستان) میں لکھی۔جو کہ عربی کی کتب سے اردو و ہندی زبان میں کنورٹ کی گئی۔جیسا کہ مشہور ہندو جوتشی و آچاریہ(آسٹرولوجر) ڈاکٹر راکیش کٹھوریہ نے بھی اپنے بہت سے پوڈکاسٹ میں اس بات کا ذکر کیا۔میں نے اس کتاب کا دقیق نظری سے مطالعہ کیا اور بالآخر اس سنسنی خیز نتیجہ پے پہنچا کہ اس کتاب کو اہل بیت علیھم السلام کے مختلف فرامین کے نچوڑ کو نکال کر مرتب کیا گیا۔جس کا ثبوت لال کتاب کے ہر شعر کے ساتھ میرے پاس فرمان معصومؑ کی تائید میں موجود ہے۔جس کی امثلہ آگے بیان کرو گا۔۔۔۔۔۔۔اگر زندگی نے فرصت دی تو جلد اس کتاب کے لوازمات کو محمدؐ و آل محمدؐ کے فرامین کی روشنی میں ثابت کر کے کتاب یا کسی میگزین میں ترتیب وار آرٹیکلز بھی شائع کرو گا تاکہ اس علم سے شغف رکھنے والے شائقین مستفید ہو سکے۔
یاد رہے کہ علم النجوم سات سیاروں کے گرد گھومتا ہے جو سورج،چاند،مریخ،مشتری،عطارد،زہرہ اور زحل ہے۔سال کے بارہ مہینے بارہ بروج کی وجہ سے ہیں۔جن کے حاکم یہ سیارگان ہے،ہر برج کا ایک گھر ہوتا ہے جو بارہ مہینوں میں منقسم ہے۔جو حمل سے شروع ہو کر حوت پے ختم ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔انسان کی زندگی پے انہی سیارگان کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج یہ علم مسلمانوں کی بجائے غیرمسلم حضرات میں مقبول ہے تبھی کامیابی کی شرح غیرمسلم حضرات میں 70% ہے۔یہی وجہ ہے کہ عرب و عجم و مغرب کے حکمران اپنے درباریوں میں خاص عہدہ ماہرین علم النجوم کو دیتے رہے۔جیسے کہ فرنگی فلاسفر جے،بی مورگن کا مشہور مقولہ ہے "Millionaires Don’t Believes in Astrology But Billionaires Do”
مجھ کو ذاتی طور پے علم النجوم سے کافی دلچسپی ہے،ہو بھی کیوں نہ آخر اللہ تعالی نے ایسے تو نہیں فرمایا فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ،وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَۙ-وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖؕ،وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا لہذا ایک طرح نقطہ اسلام کے مطابق اس علم کے موجد حضرت ادریسؑ ہے،نیز آئمہ اہلبیتؑ کے علم کا ذخیرہ "رسالة الجفر” اسی علم کے بیش بہا موتی نچھاور کرتا ہے۔
تمہیدا بتاتا چلو کہ قرآن مجید کے اسرار و رموز پے جب غور کیا جائے تو سیارگان کا کافی ذکرِ حسنہ ملتا ہے۔حسنہ کا لفظ دراصل اس لیے استعمال کیا کہ سیارگان کے علم یعنی علم النجوم کو غلط سمجھنے والو کا قلع قمع ہو سکے،معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی علم فی البدیع غلط یا صحیح نہیں ہوتا بلکہ اس علم کو استعمال کرنے والے کو اختیار ہے کہ وہ اس کو کس نوعیت میں استعمال کرتا ہے۔
علماء عرب و عجم نے اس علم کی تاریخ و اسرار پے بہت سی کتب لکھی جیسے شیعہ محدث ابن طاووس رح نے "فرج المھموم” اور عامة المسلمین کی طرف سے ابومعشر نے "الفلکی الکبیر للرجال و النساء” تحریر فرمائی۔یاد رہے کہ انبیاءؐ و اوصیاء انبیاءؑ نجوم الفلکی اثرات سے مبرہ ہے،بھلا جس کے لیے سیارہ قمر دوٹکڑے ہونے کو بیتاب ہو،سورج واپس پلٹنے کو ترسے،ستارے در سیدہؑ پے سجدہ ریز ہو وہ ذوات مقدسہ بھلا کیونکر ان سیارگان کے تابع ہو سکتے ہیں؟
ہاں البتہ یہ ان کا ترس ہے کہ وہ ان سیارگان کو اپنی طرف منسوب کر کے شرفیت کے مقام پے لے جائے جیسا کہ امام جعفرصادقؑ نے سیارہ زحل(Saturn) سے متعلق فرمایا کہ زحل کو نحس مت کہو "ھو کوکب امیرالمومنینؑ” یہ حضرت علیؑ کا سیارہ ہے(تفسیر القرآن مولانا مقبول دہلوی رح)۔
آخر کیا سبب ہے کہ زحل کو مولا علیؑ کا سیارہ کہا گیا؟
کیونکہ زحل سیارگان میں قاضی القضاہ(چیف جسٹس) ہے جیسا کہ پنڈت روپ چند "لال کتاب ص 28” پے لکھتے ہیں:
شنی گورو کا حلف اٹھاوے’
فیصلہ کرتا بعد میں ہے’
دودھ ماتا کا یاد ہے کر کے’
فیصلہ کرتا شنی بھی ہے’
زحل کو ہندی زبان میں "شنی” کہتے ہیں۔ان اشعار میں زحل کو فیصلہ کرنے والا گرو(چیف جسٹس) کہا ہے اور ایسا فیصلہ کرتا ہے کہ جیسے ماں کے دودھ کی لاج رکھے مطلب دو نمبر فیصلہ نہیں بلکہ حقیقت پے مبنی فیصلہ،جس میں اگر انسان نے نیک اعمال کیے ہیں تو اس کی جزاء نیک دیتا ہے اور اگر بداعمال کیے ہیں تو اس کا فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق ہوگا،غالبا بداعمال لوگوں کے لیے یہ اس سبب سے منحوس ہے کہ یہ فیصلہ سازی میں خریدا نہیں جا سکتا،بھلا فیصلہ سازی میں خریدا بھی کیسے جائے جس کی نسبت اس امامؑ سے ہو جو ممبر کوفہ پے برسر پیکار فرمائے کہ لوگوں نے ظالم حکمرانوں سے ان کے ظلم کی وجہ سے تو نفرت نہ کی،جتنی نفرت مجھ علیؑ سے میرے عدل پے مبنی فیصلوں کے سبب کی۔
چند امثلہ مفیدہ:
مشہور حدیث رسولؐ ہے کہ حضرت محمدؐ نے فرمایا صدقہ کرو چاہیے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو۔
یاد رہے کہ کھجور کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور سیاہ رنگ زحل سے منسوب ہے۔جس سے زحل کے نحس اثرات زائل ہوتے ہیں۔
اسی طرح زحل چونکہ قاضی القضاہ ہے جو ظالم کے خلاف فیصلہ دیتا ہے جس سے منسوب رنگ سیاہ ہے۔تو اب غالبا اس فرمان معصومؑ کی معرفت ہو جائے گی جس میں معصومؑ نے فرمایا کہ "سیاہ لباس نہ پہنو یہ فرعون کا لباس ہے”
اب سوال یہ ہے کہ ویسے معصومؑ منع کر دیتے سیاہ لباس پہننے سے،فرمان میں فرعون کا ذکر کیوں کیا؟
تو اس لیے کہ سیاہ رنگ ظالم کے ظلم کے خلاف فقط پہنا جائے جیسے وکلاء کا لباس سیاہ ہے کیونکہ وہ زحل کی نمائندگی کرتے ہیں اور ظلم کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ہاں اگر کوئی ظالم ہی سیاہ لباس پہن لے تو وہ فرعون کا تابعدار ہی بنے گا جیسے بنوعباس مثل متوکل و متعصم جیسے ظالمین نے مظلومیت سے منسوب کالا لباس پہنا۔لہذا معصومؑ نے سیاہ لباس اس تناظر میں پہننے سے منع کیا جس کو علم النجوم واضح بیان کرتا ہے۔جب کہ یہ سیاہ لباس اب صرف یزید جیسے ظالم کے خلاف مظلوم سیدالشھداء امام حسینؑ کو رونے والی قوم کی قومی نشانی بن گیا۔اس کے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ قرآن کے بیان کردہ الطارق یعنی زحل جیسے قاضی القضاہ نے یزید پلید کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ثم الحمدللّٰہ
اسی طرح "لال کتاب ص22” میں زائچہ کے آٹھویں گھر کو موت کا گھر کہا گیا ہے۔اور چاند جب اس گھر سے گزرتا ہے تو اس کو "قمر در عقرب” کہا گیا ہے۔شیعہ و سنی کتب میں فرمان امام علیؑ ہے کہ جب قمر در عقرب یعنی چاند آٹھویں گھر میں ہو زائچہ کے تو کوئی نیک کام نہ کرو(نزھة اثناعشریہ،تہذیب الاسلام)۔
اور تو اور منگل بد یعنی Weak Mars کا تعلق بھی خاص اس گھر سے ہیں۔جس اصول کو لال کتاب نے 80سال پہلے بیان کیا وہی اصول امام المتقین مولا علیؑ نے چودہ سو سال پہلے بیان کر گے۔
امام جعفرصادقؑ نے فرمایا زرد عقیق پہنو اس سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے(تہذیب الاسلام)۔
لال کتاب کہتی ہے کہ زرد اشیاء مشتری کی ہے۔جو دولت میں اضافہ کا باعث ہیں۔۔۔۔۔سائنس کی رو سے بھی ثابت ہے۔کیونکہ جب سورج کی کرنیں عقیق ذرد پے پڑتی ہے تو وہ انسانی دماغ میں رزق کے وسائل وقوع میں لانے کا سبب بنتی ہے۔جیسے سورج کی کرنیں وٹامن ڈی کی مقدار پوری کرتی ہے یا اب سورج کی کرنوں سے سولر بجلی کا پیدا ہونا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔