نیشنل کونسل فار طب کا اقدام

معاشرے کے حساس ایشو پر ایم اے دوشی کا کالم

0

معاشرے کے حساس ایشو پر ایم اے دوشی کا کالم

ہمارے معاشرے میں پچھلے کچھ عرصے سے ایک افسوسناک رجحان تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ مختلف افراد، چاہے وہ رجسٹرڈ طبیب ہوں یا غیر مستند افراد، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر ذرائع پر غیر اخلاقی اور گمراہ کن اشتہارات کے ذریعے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ لوگ مبالغہ آرائی، جھوٹے دعوے اور غیر مستند علاج کی تشہیر کر کے نہ صرف لوگوں کی صحت کے ساتھ کھیل رہے تھے بلکہ طب جیسے مقدس پیشے کو بھی بدنام کر رہے تھے۔

ایسے حالات میں نیشنل کونسل فار طب کی جانب سے یہ اعلان کہ غیر اخلاقی ویڈیوز اور اشتہارات جاری کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، نہایت خوش آئند اور بروقت قدم ہے۔ حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی رجسٹرڈ طبیب اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو نہ صرف اس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی بلکہ بھاری جرمانہ اور سات برس قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ جبکہ نان کوالیفائیڈ افراد کے خلاف بھی بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

اس اقدام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عوام میں ایک اعتماد بحال ہوگا۔ لوگ اب جان سکیں گے کہ حکومت ان کے مفاد کے لیے سرگرم ہے اور جعلی دعووں اور جھوٹے اشتہارات کے پیچھے چھپے لالچی عناصر کو لگام دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جب لوگوں کو یقین ہوگا کہ صرف مستند طبیب اور منظور شدہ ادارے ہی علاج کے مجاز ہیں تو وہ جھوٹے دعووں سے بچ سکیں گے اور ان کی صحت محفوظ رہے گی۔

آج کا نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ جب وہ مختلف ویڈیوز میں یہ دیکھتا ہے کہ ایک دوا ہر مرض کا علاج بتائی جا رہی ہے یا محض چند دنوں میں حیرت انگیز نتائج کے وعدے کیے جا رہے ہیں تو وہ متاثر ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر ان جعلی نسخوں اور علاجوں کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد ان گمراہ کن ویڈیوز پر روک لگے گی اور نوجوان نسل ایک صحت مند اور درست سمت اختیار کرنے کے قابل ہوگی۔چونکہ طب ایک نہایت مقدس اور تاریخی پیشہ ہے، جس کی بنیاد صدیاں پرانی ہے۔ اس پیشے کا مقصد ہمیشہ انسانیت کی خدمت اور علاج معالجہ رہا ہے۔ لیکن جب چند غیر ذمہ دار افراد اس کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیں اور اخلاقی اصولوں کو پامال کریں تو اس کے وقار کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ نیشنل کونسل فار طب کے اقدام سے ایسے افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی اور طب کے وقار کو بحال کیا جا سکے گا۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو نہ تو کسی ادارے سے مستند تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کسی قسم کا لائسنس یا رجسٹریشن ہوتی ہے۔ مگر وہ سوشل میڈیا پر خود کو ماہر طبیب یا حکیم ظاہر کرتے ہیں۔ یہ افراد عوام کی جانوں سے کھیلتے ہیں اور غلط علاج کے باعث لوگوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام سے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور عوام کو ان کے فریب سے محفوظ رکھا جا سکے گا۔

یہ قدم مجموعی طور پر ہمارے صحت کے نظام میں بھی بہتری لائے گا۔ جب غیر مستند اور غیر اخلاقی عناصر ختم ہوں گے تو عوام زیادہ اعتماد کے ساتھ مستند طبیب اور ڈاکٹروں کی طرف رجوع کریں گے۔ اس سے علاج کے معیار میں اضافہ ہوگا اور صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہوگی۔ دنیا بھر میں آج کل صحت کے شعبے میں معیار اور شفافیت کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ جب پاکستان میں ایسے اقدامات کیے جائیں گے جن سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پایا جائے تو عالمی سطح پر بھی ہمارے ملک کا ایک مثبت تاثر قائم ہوگا۔ یہ بات ہمارے صحت کے اداروں اور ان کی کارکردگی کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرے گی۔ یہ اقدام صرف ایک ابتدا ہے۔ حکومت اگر اس پر سختی سے عمل درآمد کراتی ہے اور عوامی آگاہی کے پروگرام بھی ساتھ شروع کرتی ہے تو مستقبل میں معاشرہ ان جعلی دعووں اور غیر اخلاقی اشتہارات سے پاک ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ایک صحت مند، باشعور اور پر اعتماد معاشرہ وجود میں آئے گا جو اپنی صحت کو محفوظ رکھنے کے لیے صرف مستند اور اہل طبیب پر انحصار کرے گا۔

آخر میں بس یہی کہوں گا کہ نیشنل کونسل فار طب کا یہ فیصلہ نہ صرف طب کے شعبے کے لیے بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے عوام کا اعتماد بحال ہوگا، نوجوان نسل کو گمراہ کن ویڈیوز سے بچایا جا سکے گا، طب کے وقار کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے گا اور غیر مستند افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اگر یہ اقدامات تسلسل اور سختی کے ساتھ جاری رہے تو آنے والے وقت میں پاکستان ایک ایسا معاشرہ بن سکتا ہے جہاں صحت کے شعبے میں شفافیت، اعتماد اور بہتری کا دور دورہ ہوگا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.