وفاقی وزیر صحت کا میٹھے مشروبات پر 50 فیصد ٹیکس لگانے کا مطالبہ
"ہر منٹ ایک ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے" — پاکستان شوگر، ذیابیطس اور امراض قلب کے بحران کی دہلیز پر، پارلیمنٹیرینز نے فوری مالی اقدامات پر زور دیا
اسلام آباد : وفاقی وزیر صحت نے بجٹ تقریر کے دوران بیماریوں کے علاج کے بجائے بچاؤ کو ترجیح دینے کی حکومتی پالیسی پر زور دیتے ہوئے میٹھے مشروبات پر 50 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ غیر متعدی امراض (NCDs) کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں ہر منٹ ایک ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے، اور ہم دنیا میں ذیابیطس کی شرح کے لحاظ سے سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔ اگر ہم نے صحت عامہ کی ترجیحات کے مطابق پالیسی اقدامات نہ کیے تو ہمیں صحت اور معیشت دونوں میں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں متعدد اراکین پارلیمنٹ نے وزیر خزانہ سے مطالبہ کیا کہ سولر پینلز پر ٹیکس لگانے کے بجائے میٹھے مشروبات اور الٹرا پراسیسڈ جنک فوڈز پر ٹیکس بڑھایا جائے۔
پاکستان میں صحت کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے — روزانہ 1100 سے زائد اموات ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کے باعث ہو رہی ہیں، جبکہ روزانہ 300 سے زائد افراد کی ٹانگیں کاٹی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال فوری اور سائنسی بنیادوں پر مبنی حکومتی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ میٹھے مشروبات اور الٹرا پراسیسڈ خوراک کا استعمال موٹاپے، دل کے امراض، فالج، ٹائپ 2 ذیابیطس اور گردوں کی بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ان میں شوگر، نمک اور چکنائی کی مقدار زیادہ جبکہ غذائیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
صرف ذیابیطس کے علاج پر پاکستان سالانہ 2.6 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ایک ذیابیطس مریض پر سالانہ اوسط معاشی بوجھ 740 ڈالر ہے، جو کہ ایک عام پاکستانی کی نصف فی کس آمدن کے برابر ہے۔ NCDs سے قبل از وقت اموات کے باعث 2010 سے 2025 تک پاکستان کو 358 سے 862 ارب ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔
الٹرا پراسیسڈ فوڈز کی مارکیٹ 2020 میں 5.7 ارب ڈالر تھی اور 2025 تک 6.9 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جو 10 فیصد سالانہ ترقی کا عندیہ دیتی ہے، جبکہ فاسٹ فوڈ سیکٹر 15 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ میٹھے مشروبات اور پراسیسڈ مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا ایک مؤثر حکمت عملی ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور کم آمدن والے طبقے میں استعمال کو کم کرنے کے لیے۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیکس سے حاصل آمدن صحت اور غذائیت کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مشروبات کی صنعت کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو پیک شدہ فروٹ جوسز کو "صحت مند” قرار دے کر پالیسی سازوں کو گمراہ کر رہی ہے، حالانکہ ان میں شکر کی مقدار کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فروٹ جوس انڈسٹری ملک کی کل پیداوار کا صرف 2 فیصد سے بھی کم استعمال کرتی ہے، اس لیے یہ دعویٰ کہ ٹیکس سے کسان متاثر ہوں گے، بے بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جوسز پر ٹیکس اور قیمتیں دنیا کے کئی ممالک سے کم ہیں، اور بین الاقوامی مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ان اشیاء پر ٹیکس لگانے سے نہ تو روزگار ختم ہوتا ہے اور نہ ہی معیشت متاثر ہوتی ہے، بلکہ عوامی صحت میں بہتری آتی ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ میٹھے مشروبات پر 50 فیصد اور ٹھوس الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جائے تاکہ صحت عامہ کے بحران سے بچا جا سکے اور قومی ترقی کے لیے وسائل مہیا ہوں۔