اسلام آباد ہائیکورٹ میں سری لنکا سے واپس آئے قیدیوں کا مقدمہ زیرِ سماعت، حراست میں ایک قیدی جاں بحق
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی درخواست پر 43 پاکستانی قیدی آٹھ ماہ سے قانونی غیر یقینی صورتحال کا شکار، حکومت پر شفاف اور فوری طریقہ کار وضع کرنے پر زور۔
اسلام آباد(شکیلہ جلیل ) اسلام آباد ہائیکورٹ میں سری لنکا سے وطن واپس لائے گئے پاکستانی قیدیوں کے مقدمے کی سماعت ہوئی، جہاں انکشاف کیا گیا کہ ایک قیدی حراست کے دوران جاں بحق ہو گیا۔ یہ معاملہ سری لنکا سے اکتوبر 2024 میں واپس لائے گئے 56 پاکستانی شہریوں سے متعلق ہے، جن میں سے 43 اب بھی قانونی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ آئینی درخواست جسٹس پراجیکٹ پاکستان جسٹس کی جانب سے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ہے، جس کا عنوان فائزہ علی قادر و دیگر بنام فیڈریشن آف پاکستان و دیگر ہے۔ مقدمے میں اس بات پر شدید تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں کہ واپس لائے گئے قیدیوں کو تاحال قانونی عمل کے بغیر حراست میں رکھا گیا ہے۔ یہ افراد 2004 کے پاکستان-سری لنکا معاہدے کے تحت واپس بھیجے گئے تھے، جس میں سزا کی مطابقت کا جائزہ پاکستانی قانون کے مطابق لینے کی اجازت ہے، تاہم یہ عمل ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔اس کیس میں قیدیوں کے کیس فائلز تک رسائی اور ان کی سزاؤں کو پاکستانی قانون کے مطابق ایڈجسٹ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے بار بار تاخیر اور سری لنکا سے ضروری دستاویزات نہ ملنے کے باعث قیدی غیر واضح صورتحال میں ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ وزارتِ خارجہ کی طرف سے سری لنکن حکام کو خط بھیجا گیا تھا، تاہم اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ دورانِ سماعت جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے وکیل نے اس سرکاری خط کی کاپی فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق زیادہ تر قیدی بیرونِ ملک مشکوک حالات میں سزا پانے پر مجبور ہوئے، ان کے پاس مؤثر قانونی نمائندگی نہیں تھی اور کئی کو دباؤ ڈال کر اعترافِ جرم پر مجبور کیا گیا۔ اگر یہی کیسز پاکستان کے قوانین کے تحت ہوتے تو ان کی سزائیں کہیں کم ہوتیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 23 ہزار سے زائد پاکستانی دنیا بھر کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے طریقہ کار نہ بنایا تو واپس آنے والے قیدی غیر معینہ مدت تک جیلوں میں ہی قید رہیں گے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر قیدیوں کی سزاؤں کا جائزہ لینے اور انہیں پاکستانی قانون کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک واضح اور شفاف نظام وضع کرے تاکہ مزید انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے۔